Siasi Rang
سیاسی رنگ
پاکستان کے سیاسی رنگ موجودہ دور میں کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ ان رنگوں کو افشاں کرنے میں میڈیا کے کردار سے انکار نہیں۔ ابھی کل میں نیوز چینل پہ ایک صحافی کی جانب سے اسد عمر کو پوچھے گئے سوالات کی ویڈیو دیکھ رہی تھی جس میں صحافی کا سوال تھا کہ عمران خان نہ تو پنجاب کے گورنر ہیں اور نہ ہی وزیر اعلیٰ، تو پھر کیوں پنجاب حکومت کا ہیلی کاپٹر ان کے ذاتی استعمال میں ہے؟
ہیلی کاپٹر انھیں بنی گالا سے پک اینڈ ڈراپ سروسز کیوں فراہم کر رہا ہے؟ مگر اسد عمر نے ان سوالوں سے جان چھڑاتے ہوئے کیمرہ بند کرنے کا کہا اور دس سیکنڈ میں رفو چکر ہو گئے۔ مگر یہ معاملہ کچھ نیا نہیں، خیبر پختونخوا کا طیارہ بھی کئی عرصے سے عمران خان کے ہی ذاتی استعمال میں ہے۔ یہاں تک کہ اس طیارے کو ان دنوں میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے استعمال ہونا چاہیے مگر ندارد۔
عمران خان اس وقت ملک کے سابقہ وزیراعظم کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ان کے جیسا پروٹوکول، سیکیورٹی، ٹھاٹ بھاٹ تو موجودہ وزیراعظم کو بھی نصیب نہیں۔ عدالت میں اس شان سے جاتے ہیں گویا پوری دنیا پہ حکومت کرتے ہیں۔ جس کو چاہا دھمکی لگا دی، جس کا چاہا چیزا اڑا لیا، سب منظور، تمام اعلیٰ حکومتی ممبران اور ریاستی ادارے خاموشی سے اپنا مذاق بنتا دیکھ رہے ہیں۔ مگر مجال ہے ایک لفظ بھی بول دیں۔
جو فیصلہ اس کے حق میں ہو وہ درست، نہیں تو جج کی ایسی تیسی اپنے جلسوں میں جی بھر کے کر لی، مذہب کارڈ تو ان کی پالیسیوں میں یوں کھیلا جا رہا ہے جیسے مذہب خود ان کی اختراع ہے۔ شرک کی تعریف سے لے کر اسلامی ٹچ تک جتنا مذہب کو اپنے فائدے کے لیے عمران خان نے استعمال کیا ہے اس سے پہلے کسی لیڈر نے ایسی جرات نہیں کی۔ اور اب تو پیغمبران کی تعداد بھی اپنے ہی حساب سے گنوا دی۔ ملک کی آبادی کا تخمینہ اپنے ذہن سے لگاتے ہیں اور خوشامدی اینکر اور صحافی ان کی غلطیوں کو بڑے شاطرانہ انداز میں"سلپ آف ٹنگ" کے لیبل میں چھپا دیتے ہیں۔
خیبر پختونخوا سمیت آدھا پاکستان سیلاب میں ڈوب گیا، اس کے باوجود عمران کے جلسے تواتر سے جاری و ساری ہیں۔ عوام میں تو جرات ہی نہیں کہ وہ حکمرانوں سے سوال کر سکیں۔ بلکہ عمران خان سے سوال کرنے کی جرات تو ملک کے کسی ادارے اور فرد میں نہیں۔ رہی سہی کسر ان کے اندھے فالورز پوری کر رہے ہیں جو عمران کے ہر خطاب کو وعظ اور ہر جملے کو حدیث کے برابر درجہ دیتے ہیں۔
پروٹوکول سے لے کر حکومتی مشینری استعمال کرنے تک، عدلیہ اور فوج اور ریاستی اداروں کی تضحیک کرنے تک، حکومت کو امپورٹڈ کہنے سے لے کر چیری بلاسم کہنے تک کونسا گھٹیا لفظ ہے جو عمران خان نے اپنے حریفوں کے لیے استعمال نہیں کیا اسکے باوجود وہ ایک ایماندار انسان ہے اور اسکی نیت پہ شک نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتیں ان کی جیب میں موجود ٹشو پیپر کی طرح ہیں جسے جب جی چاہے وہ پیروں میں روند سکتے ہیں۔
قانون کا انھیں خوف نہیں، کیونکہ ان کی شہرت قانون سے بالاتر ہے اور ایسے معروف لیڈر پہ ہاتھ ڈالنا کسی کے بس میں نہیں۔ فوج کو جو جی چاہے وہ کہہ دیں خاموش رہنا ان کا مقدر ہے۔ کیا یہ سوال ضروری نہیں کہ اس قدر مراعات عمران خان کو کیوں بخشی جا رہی ہیں؟ کیوں ریاستی مشینری کے استعمال پہ ان سے سوال نہیں، کیوں مخالفین کی سرعام تذلیل پہ کوئی جرمانہ نہیں، کیوں ریاستی اداروں پہ انگلی اٹھانے پہ عمران خان پہ کوئی مقدمہ نہیں، اور اگر مقدمات ہیں بھی، تو ان کے فیصلے کیوں نہیں ہو رہے؟
کیا عمران خان کے بارے جو لقب لاڈلا مشہور ہے کہ وہ آج طاقتور ادارے کے لاڈلے ہیں یہ بیان درست ہے۔ خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے عمران خان نے اینٹی امریکہ پالیسی کا سہارا لیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے امریکہ کا نام لینے سے عمران خان سے کسی طرح کی بازگشت نہ کی جائے گی۔ اور نہ ہی امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندای کر سکے گا کہ کیوں پاکستانی عوام کو امریکہ کا نام لے کر بھڑکایا جا رہا ہے۔
امریکہ کا نام لینے سے عمران خان کا بیانیہ تو کیا وہ خود بھی شہرت کے ساتویں آسمان پہ پہنچ گئے اب یہ حال ہے کہ ان کی جماعت کے ارکان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک کی نمبر ون جماعت کے چئیرمین اور پاکستان کے سب سے معروف لیڈر پہ ایسے مقدمات جچتے نہیں۔ اور یہ سب اس لیے ہو رہا کیونکہ حکومت کمزور ہاتھوں میں ہے اگر دلیر اور جی دار لوگ ہوتے تو شاید حالات مختلف ہوتے اور عمران خان مخالفین کی کمزوری اور بزدلی سے خوب واقف ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ حکومتی تلوں میں تیل نہیں ہے۔