Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Sadar Sahab Ke Naam Khat

Sadar Sahab Ke Naam Khat

صدر صاحب کے نام خط

(کچھ روز پہلے میں نے لبرٹی شاپنگ مال لاہور سے ایک ہینڈ بیگ خریدا۔ بیگ کی حالت درست رکھنے کے لیے اس کے اندر اخبارات اور کچھ صفحات رکھے جاتے ہیں جس کے باعث وہ کہیں بھی پڑا رہے اس کی ساخت خراب نہیں ہوتی۔ گھر آ کر میں نے وہ کاغذ بیگ سے نکال دئیے پھینکنے ہی والی تھی کہ جانے کیا سوچ کے وہ صفحات یونہی کھول کر دیکھ لیے ان میں ایک خط ملا۔ خط جو جولائی 2010 میں ملک کے صدر کو لکھا گیا تھا اس وقت صدرات کے منصب پہ جناب زرداری فائز تھے خط کا متن کچھ یوں تھا)۔

جناب محترم

السلام علیکم! دعا گو ہوں آپ اور آپکا گھرانا یونہی سلامت اور آباد رہے محترمہ مرحومہ کی کمی ہم نیاز مندوں کو شدت سے محسوس ہوتی ہے تو آپ ان کے بنا کیسے خود کو سنبھال پاتے ہوں گے اندازہ لگا سکتی ہوں مگر رضائے رب کے آگے بندہ بےبس ہے اللہ ربّ العزّت آپ اور آپ کے خاندان کو اس صدمے کی برداشت کا حوصلہ عطا کریں

عرض حال کچھ یوں ہے سال 2007 میں میری شادی شہر لاہور کے علاقہ گلبرگ میں ہوئی سسرال متوسط طبقے سے ہے آسائشوں بھری زندگی نہ دے سکا اس پہ ستم ظریفی یہ کہ پہلی اولاد جس کی مجھے بےحد تمنا تھی اولاد نرینہ نصیب ہو مگر بدبختی دیکھیے خواہش بھی پوری ہوئی تو ادھوری، یعنی بیٹا جسمانی طور پہ معذور ہے اس کی کمر کی ہڈی جسے ریڑھ کی ہڈی کہتے ہیں میرے بطن میں ہی مکمل نہ بن سکی اور اس وجہ سے کمر کا پانی سر کی جانب رخ کر گیا ٹانگوں سے بھی معذور ہے مگر اس کے باوجود میرا بیٹا انتہائی خوش شکل ایک فرشتے جیسا ہے اور مجھے بے حد عزیز ہے اس کو دنیا میں لانے والی ڈاکٹر جسے عام زبان میں لوگ مسیحا بھی کہتے ہیں حالانکہ میری بےبسی اسی کی وجہ سے ہے کیونکہ اس نے میرے الٹراساؤنڈ کی رپورٹس کو توجہ سے نہ دیکھا نہ پڑھا اور اس بچے کو دنیا میں لانے کا گناہگار اب وہ مجھے ٹھہرا رہی ہے خیر وہ تو اس بچے کی ماں نہیں، اگر ماں ہوتی تو بچے کی معذوری کا درد جانتی۔

محترم آپ یہ مت سمجھیے کہ مجھے اپنے معذور بچے کے لیے آپ سے کسی قسم کی مالی مدد کی ضرورت ہے یا میں کہوں گی کہ آپ اس کا علاج معالجہ کروا دیں یا پھر اس ڈاکٹر سے غفلت کی بازپرس کریں ایسا ہرگز نہیں۔

بلکہ گزارش یہ ہے کہ جب سے آپ ملک کے صدر بنے ہیں دن بدن لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا ہی جا رہا ہے حالانکہ 2008 سے پہلے بھی بجلی بسا اوقات آنکھ مچولی کھیلتی تھی مگر ایسی ظالم نہ ہوئی تھی کبھی، کہ تین تین گھنٹے غائب رہے۔ گرمی اور حبس کے دن ہیں اے سی کی سہولت میسر نہیں، نہ ہی یو پی ایس یا جنریٹر دستیاب ہے میرے شوہر ایک پرائیویٹ دفتر میں مارکیٹنگ کا کام کرتے ہیں تنخواہ اٹھارہ ہزار ہے جس میں رب رازق کا شکر، عزت سے گزارا ہو جاتا ہے مگر اس لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا میرا بچہ بیمار ہے زیادہ گرمی میں نہیں رہ سکتا، بنا پنکھے کے رہے تو اس کا جسم گرم ہونے لگتا ہے اور دوائیوں کے مسلسل استعمال سے اسے پسینہ بھی بہت آتا ہے اور اپنے بچے کی ایسی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ماں ہوں، دل کٹ کر منہ کو آتا ہے بی-اے پاس ہوں مگر گھریلو ذمے داریوں اور بچے کی دیکھ بھال کے باعث کسی قسم کی ملازمت نہیں کر سکتی

فقط اتنی گزارش ہے ملک کے نونہالوں کی خاطر ہی سہی بجلی کے مسائل حل کر دیں بےشک میرا بچہ معذور سہی مگر اسی ملک و قوم کا بچہ ہے یا میرے سسرال والوں کی طرح آپ بھی اسے بوجھ کے مترادف ہی خیال کرتے ہیں مگر خیر کوئی کچھ بھی کہے مگر وہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور مجھے بہت عزیز ہے اسے ایک ماں کی درخواست سمجھیے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پہ توجہ دیجیے۔

خط پڑھا پتہ ہی نہ چلا کب دو آنسو آنکھوں سے نکلے اور کاغذ پہ گر گئے۔

یہ واقعہ بےشک 2010 کا ہے مگر ذہن سوچوں میں غرق ہو گیا کہ اس ملک کے مسائل تو 2022 میں بھی یہ ہی ہیں اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی بجائے بجلی کے بل مار رہے ہیں ہر روز مہنگائی کا پارہ چڑھتا جا رہا ہے گیس دستیاب نہیں صاف پانی پینے کو نہیں ملتا۔ عوام روٹی پوری نہیں کر پا رہی علاج معالجے کی آسائش کیسے پوری کرے آج بھی بہت ساری مائیں روزانہ ایسے کئی خط ملک کے موجودہ صدر یا وزیر اعظم کو لکھتی ہوں گی مگر افسوس اگلے چند سالوں بعد وہ بھی اسی طرح ردی کی مانند ہنیڈ بیگس کی دکانوں پہ پڑے ملیں گے۔ اور بےبسی کا یہ اندوہناک تماشا یونہی جاری و ساری رہے گا نہ کسی عام انسان کا خط کبھی ملک کے صدر یا وزیراعظم تک پہنچے گا اور نہ ہی کوئی اس ملک کے حکمران ملک کے عام انسان کا دکھ جان پائے گا۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari