Sach Kya Aur Jhoot Kya?
سچ کیا اور جھوٹ کیا؟
ریاستی اداروں کی بےبسی عمران خان کے سامنے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ ایک عام آدمی کی اس ملک میں کچھ اوقات نہیں، اگر شان سے جینا ہے تو سیاسی حکمران بن جاؤ اور ایسے بیان دو کہ عوام خود بخود کھینچی چلی آئے۔
چوبیس گھنٹے گزر گئے مگر پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس، رینجرز اور ڈولفن پولیس، یہ تین ادارے باہم متحد ہو کر بھی عمران خان کے سائے تک کو نہ چھو سکے۔ یہاں تک کہ ان کے گھر میں داخل بھی نہ ہو سکے۔ پی ٹی آئی کارکن کو روٹی ملے یا نہ ملے، مگر ان کے لیڈر کو محفوظ چھت ملنا بہت ضروری ہے۔
ایک وہ شخص جو خود کو عدلیہ کی آزادی کا ترجمان کہتا ہے جس کا مؤقف ہے کہ قانون امیر غریب، بڑے چھوٹے سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، اگر ایسا نہیں ہے تو قانون کی کیا وقعت ہے، ایک اسی شخص کو قانون سے رعایت چاہیے۔ اس کا دل چاہے تو پیشی پہ حاضر ہو، نہ دل چاہے تو گھر کے پرسکون کمرے میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھا رہے۔ میرا اشارہ بالکل عمران خان کی طرف ہے، ہو سکتا ہے ان پہ بننے والے پچھتر کیسز جھوٹے ہوں، وہ سارے ان کے مخالفین کی سازش ہو۔
مگر جب عدالت میں کیس سماعت کے لیے پیش ہو جائے تو مطلوب شخص کو وہاں حاضر ہونا پڑتا ہے یا اسے غیر حاضری سے متعلق عدالت میں تحریری جواب دینا پڑتا ہے مگر عمران خان وہ شخص ہیں جس کے سامنے ملک کے تمام ریاستی ادارے بےبس ہیں وہ چاہے عدالتیں ہوں پولیس یا فوج۔ عدالت میں جج ان کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے وہ ابھی تشریف لے آئیں، معافی نامہ پیش کرنے کے لیے عدالتیں ان کی منتیں کرتی ہیں کہ براہ کرم تحریری معافی نامہ پیش کر دیں تاکہ کیس کو ختم کیا جائے۔
فوج کے ادارے پہ ملکی اور غیرملکی میڈیا پہ جیسا مرضی بیان جاری کر دیں کسی کی جرات نہیں وہ سوال کر سکے۔ پولیس کے اہلکار ہوں یا اعلیٰ افسران جب دل چاہا کسی بھی جلسے کے خطاب میں انہیں دھمکی لگا دی، کون مائی کا لال ہے جو عمران خان کے مد مقابل آئے؟ اور پوچھے یہ سارے اختیارات کس نے تفویض کیے جناب؟ مگر مجھے حیرت ہے ان کارکنان پہ، جو سر پہ کفن باندھے زمان پارک یا بنی گالا کے دروازے پہ کتے کی طرح بندھے رہتے ہیں ذرا سی ہلچل ہوئی تو مالک کے اشارے پہ دوڑ اٹھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کبھی جناب عمران خان نے نام بنام پکار کر حال احوال بھی نہ پوچھا ہوگا یہاں تک کہ وہ تو ان کی شکلوں یا ناموں سے بھی واقف نہ ہوں گے۔
مگر سلام ہے ان کارکنان کو جو جان ہتھیلی پہ لیے، خود کو سڑکوں پہ گرمی، سردی سے بےپروا ہو کر خوار کر رہے ہیں صرف اس لگن میں کہ ان کے لیڈر پہ آنچ نہ آئے۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں جو شاید کبھی اپنے پہ ہوئے ظلم و زیادتی کے لیے سوال نہیں کر سکتے۔ حکمران جس طرح چاہیں اور جیسے چاہیں، صدیوں سے ان کا استحصال کرتے آ رہے ہیں مگر یہ اپنی جانیں پلیٹ میں رکھ کر اپنے مالکوں کو پیش کرتے ہیں تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ کیا عام پاکستانی کی صرف اتنی اوقات ہے کہ وہ حکمرانوں کے گھروں کے دروازے کی حفاظت کرتا اپنی جان دے دے۔
عمران خان نے نہ صرف ملکی میڈیا کے سامنے ریاستی اداروں کی تذلیل کی بلکہ انٹرنیشنل میڈیا پہ خطابات کے دوران بھی ان کا یہ ہی وطیرہ رہا ہے۔ ابھی منگل کے روز کے معاملے کو ہی دیکھ لیں جیسے ہی انہیں یہ اندازہ ہوگیا کہ اب ان کی گرفتاری ممکن ہے انہوں نے کمرے کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی خطابات کرنے شروع کر دئیے اور انٹرنیشنل میڈیا کو جو پاکستان کی تصویر پیش کی، اس کے مطابق پاکستان کا تصور یہ دیا گیا کہ پاکستان مہذب ملک نہیں بلکہ ایک جنگل کی مانند ہے جہاں کے خونخوار جانور اس بچارے شخص کو نوچنے پہ بضد ہیں۔
یہ ہمارے ملک کے مقبول لیڈر کے کام ہیں۔ غیر ملکی میڈیا خاص طور پہ بھارتی نیوز چینلز اس صورتحال سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے کبھی ان نیوز چینلز کی رپورٹس تو سنیں وہ ملک پاکستان کی فوج اور تمام ریاستی اداروں کا کیسا مذاق اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی اس ساکھ کا ذمے دار وہ شخص ہے جو اس ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے اور اس کے سامنے ریاستی اداروں کی کوئی وقعت نہیں، جو نہ صرف اپنے فائدے کے لیے ملک کو بلکہ نسلوں کو بھی تباہ کر رہا ہے۔
مگر میرے ملک کا ایک عام پاکستانی ایسا معصوم ہے جسے جذباتی الفاظ خرید لیتے ہیں اور تمام عمر کے لیے اپنی محبت کی گرفت میں باندھ لیتے ہیں عمران خان نے ایک عام پاکستانی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے جس کا نتیجہ ظلے شاہ نے بھگتا ہے اور آگے بھی کئی محمد بلال عرف ظلے شاہ اس محبت میں قربان ہوں گے۔