Ramzan
رمضان
ماہ صیام بالاخر اپنی پوری آب و تاب اور برکات بےشمار لیے، بارہ مہینوں کا بےتاب انتظار دے کے لوٹ گیا۔ یہ تیس دن ہر مسلمان کی زندگی کے وہ پر تاثیر لمحات ہوتے ہیں جب وہ لمحہ بہ لمحہ اللہ رب العزت کے قریب سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔ روزہ، عبادت خیرات کیا ہی پسندیدہ عمل ہیں کہ فرشتے آسمان سے ترستے ہوں گے کہ کاش ہم بھی انسان ہوتے اور اپنے مالک کو ماہ صیام کے وسیلے سے خوش کر سکتے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم پاکستانی ایسے مسلمان ہیں جو ماہ صیام کی اہمیت کو جانتے ہوئے اسے دینی عقائد کے مطابق گزارتے ہیں؟
زیادہ پیچھے نہ جائیں گزشتہ دو برسوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پچھلا رمضان پاکستانی سیاسی تاریخ کا بدترین سال تھا ماہ رمضان کے تقدس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں نے سیاست کے ایسے ایسے پنطرے کھیلے کہ انسانی عقل حیران و پریشاں رہ گئی اس گندے کھیل میں سبھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ میں نہیں سمجھتی کہ کسی بھی سیاست دان کے ہاتھ ملک کی تباہی میں ملوث نہیں، سبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں اور خود کو قوم کے خیر خواہ کہتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے۔
ان کی زبانیں لرزش نہیں کھاتی جب وہ کیمروں کے سامنے بیٹھ کے ملک و قوم کی فلاح کی بات کرتے ہیں۔ 2022 رمضان کی سیاسی سازشیں دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنیں۔ بین الاقوامی برادری میں ہم نہ صرف بحیثیت مسلمان بلکہ بحیثیت قوم بھی خوب خوار ہوئے۔ کسی سیاسی پارٹی نے اس بات کا لحاظ نہ کیا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں ان ہی کاموں پہ پابندی لگانے کے لیے شیطان کو اس ماہ میں قید کر دیا جاتا ہے۔
اب رواں سال کا کچھ تذکرہ کرلیں 2023 پاکستان میں تاریخ توڑ مہنگائی کا سال مانا جاتا ہے جہاں دو وقت کی روٹی کھانی مشکل ہو وہاں روزہ افطاری کے لیے میز کیسے سجائے جائیں اس کے باوجود سفید پوش اپنی پھٹی چاردوں کو پیوند لگا کے اوڑھے بیٹھے ہیں مگر ہر دن اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اس چادر کو تار تار کیا جاتا ہے۔ اس پہ منافع خوروں کی ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری عروج پہ رہی۔ پھل، سبزی، دال، آٹا، گھی، کچھ بھی غریب کی دسترس میں نہ رہا۔
خیرات کرنے والے امرا اور صاحبِ حیثیت لوگوں نے اپنی نیک نامی کا یوں چرچا کیا کہ غریب کو درمیان میں کھڑا کرکے، اردگرد جمع ہو کے سیلفیاں خوب منہ سنوار سنوار کے لیں۔ اور اسے سوشل میڈیا پہ بےتحاشا نشر کیا تاکہ پتہ چلے وہ نیک لوگ ہیں۔ گناہ گار آنکھوں نے غریبوں کو آٹے کے پیچھے یوں خوار ہوتے دیکھا کہ دل خون کے آنسو رونے لگا۔ آٹے کے تھیلے کے لیے مرد و عورت کا فرق تک فراموش ہوگیا۔
منافع خور اور ملک لوٹنے والوں نے نہ بوڑھے کا لحاظ کیا نہ عورت اور بچے کا، سڑکوں پہ مجبور اور بےبس لوگوں نے غریب ہونے کی سزا یوں اٹھائی کہ حالتِ روزہ میں چھے چھے گھنٹے دھوپ گرمی، دھکم پیل اور اس کے بعد وہ پیروں تلے روندے گئے اور آخر میں زندگی سے بھی گئے۔ منافع خوروں نے اشیائے خورد و نوش کی نہ صرف قیمتیں آسمان کی اونچائیوں تک پہنچا دیں بلکہ سستی اشیا فراہم کرنے والوں کو قتل تک کر دیا گیا جو احترامِ رمضان میں سستا مال فروخت کرتا، اسے ہراساں کیا جاتا۔
یہ ہیں ہم مسلمان پاکستانی، جو یہ کہتے ہیں کہ صرف کلمہ پڑھنے والے جنت میں جائیں گے جس نے اپنی زبان سے یہ اقرار نہ کیا کہ اللہ ایک ہے اور حضرت محمد اللہ کے آخری نبی ہیں وہ چاہے کتنا ہی نیک پرست اور انسان دوست ہو وہ دوزخ میں ہی جائے گا۔ افسوس ہوتا ہے ہم مسلمان ہیں اس کے باوجود ہم کس طرح رمضان کا تقدس پامال کرتے ہیں اور اس پہ بہت شان سے کہتے ہیں ہم اللہ کی پسندیدہ امت ہیں جبکہ منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، جھوٹ، دھوکہ دہی میں ہم سا کوئی باکمال نہیں، مگر جنت میں صرف ہم جائیں گے۔