Punjab Ka Siasi Dangal
پنجاب کا سیاسی دنگل
مورخہ 21 جولائی 2022، یعنی آج کے دن تک پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی سیاسی حالت اس وقت رحم بھری نگاہوں سے ہم سب کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ملک پاکستان موجودہ دن تک سیاست کے گندے کھیل کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ 2018 سے ہی پنجاب کی صورتحال دگرگوں ہے۔ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی شدید خواہش کے باوجود بھی پنجاب ان کے ہاتھ نہ آ سکا۔ اور بزدار کے کمزور ہاتھوں میں ملک کی سونے جیسی قیمتی جاگیر دے دی گئی جسے اس نااہل انسان نے (عثمان بزدار کی ناقص کارکردگی کے سامنے نااہل لفظ بھی چھوٹا ہے) مٹی کے برابر کر دیا۔ 2022 کے آغاز سے جب ملک کے حالات بگڑنے لگے تو مارچ کے اواخر میں عثمان بزدار کو پی ٹی آئی چیئرمین نے استعفیٰ دینے کا حکم جاری کر دیا جسے نہ چاہتے ہوئے بھی بزدار صاحب کو ماننا پڑا۔
اس کے بعد شروع ہوا ایسا دنگل جسے دیکھ کر عقل چکرا گئی اور دماغ سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ یہ لوگ جنھیں ہم اپنے سیاسی حکمران کہتے ہیں کیا واقعی یہ قوم کے خیرخواہ ہیں یا صرف اقتدار کی ہوس کے مارے ہوئے ہیں۔
میں یہاں کسی بھی پارٹی کی حمایت نہیں کروں گی بلکہ یہ بات مجھے برملا کہنے میں کوئی خوف نہیں کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ایسا گندا سیاسی کھیل کھیل رہی ہیں جس میں نقصان سراسر قوم کا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ نقصان صرف ہم غربت اور مہنگائی کی ماری موجودہ عوام تک محدود نہیں رہنا بلکہ سالہا سال اس نقصان کا تاوان ہماری نسلیں بھگتیں گی اور ہم اسکے سدباب کے لیے کچھ کر نہیں سکتے۔ ملک کی سبھی چھوٹی، بڑی جماعتیں اپنی اپنی جگہ مخصوص طرز پہ صرف اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
عثمان بزدار کے استعفیٰ کے بعد اگلے امیدوار پرویز الہٰی جو کبھی لنگڑاتی ٹانگ، تو کبھی ٹوٹے بازو لیے فریاد کرتے نظر آئے کہ پنجاب کے تخت کے حقیقی حقدار کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے حمزہ شریف غنڈہ گردی سے یا دوسرے لفظوں میں ملک کے سبھی بڑے غنڈوں کے اتحاد اور سرپرستی میں ایک ہوٹل کے اندر منعقد اجلاس میں اکثریت کے ووٹوں سے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے اور پھر ایسے منتخب ہوئے کہ عثمان بزدار سمیت پرویز الٰہی کا پتہ بھی کٹ گیا۔ مگر پی ٹی آئی کے دونوں جیالوں نے ہار کسی صورت نہ مانی۔ کچھ عرصہ بزدار صاحب نے اپنے چکروں میں عدالتوں کو الجھائے رکھا آخرکار عدالت عالیہ نے ہاتھ جوڑ کے بزدار صاحب کو واپس ڈی جی خان جانے کا حکم سنا دیا۔
اس کے بعد چودھری پرویز الٰہی کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ مگر حمزہ شہباز سبھی پہ بھاری رہے۔ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے خلاف جیسے ہی ہائی کورٹ نے فیصلہ جاری کیا تو ضمنی انتخابات کی تاریخ کے لیے شور اٹھنے لگا۔ بالآخر الیکشن کمیشن کی طرف سے سترہ جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی مگر اس الیکشن پہ پی ٹی آئی کو خوشی سے زیادہ ملال نے گھیرے رکھا تھی انھیں سو نہیں بلکہ ایک سو بیس فیصد یقین تھا کہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔ ہر جلسے، ہر خطاب میں الیکشن کمشنر کو ٹارگٹ کیا گیا فوج پہ تنقید ہوئی مگر ریاستی ادارے خاموشی سے پی ٹی آئی کے الزامات سنتے رہے اور اس کے باوجود شفاف الیکشن کروانے میں کامیاب ہوئے مگر افسوس پی ٹی آئی پھر بھی مطمئن نہیں۔
اب آگے کے حالات اس سے بھی زیادہ رحم طلب ہیں بائیس کو ہونے والے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ہارس ٹریڈنگ جاری ہے رانا ثنا اللہ پریس کانفرنس میں بہت کھلے لفظوں میں مخالفین کو کہہ چکے ہیں کہ بائیس کو اگر ایم پی ایز ہی اسمبلی میں نہ پہنچے تو چودھری پرویز الٰہی وزارت ڈھونڈتا ہی رہ جائے گا۔
اس بیان کا نشر ہونا گویا جنگل میں تیلی پھینک دینے کے مترادف ہے آگ نے پورے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کوئی اپنے بندے چھپا رہا ہے تو کوئی دوسرے پارٹی کے ممبران خرید رہا ہے ساری کی ساری پارٹیوں کے ممبران اور سربراہان لاہور میں براجمان ہیں اور تخت پنجاب کے لیے زندہ دلان لاہور میں دنگل جاری ہے۔ مگر یہ دنگل جہاں ایک عام آدمی کو تکلیف دے رہا ہے مجھے تو لگتا ہے کہ اس خوفناک حالات سے تنگ سرزمین پنجاب نے خود بول اٹھنا ہے کہ "اقتدار کے ہوس زدہ حکمرانوں خدارا بخش دو مجھے"۔