Pasand Ka Nikah Ya Aghwa (1)
پسند کا نکاح یا اغواء (1)
دعا زہرا کا انٹرویو گھر گھر گفتگو کا مرکز بنا ہوا ہے یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی جو بھی ایپ کھولیں اس انٹرویو کی سرخیاں اور اس سے متعلق تبصرے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک یو ٹیوبر کی جانب سے لیا گیا یہ انٹرویو معاشرتی روایات سے باغی لوگوں کے لیے بہت پر کشش تھا۔ وہ براہ راست تو والدین کی حاکمیت کو جھٹلا نہیں سکتے، لہٰذا بالواسطہ نوجوانوں کی لا محدود آزادی کے ترانے پڑھتے رہتے ہیں۔ اول تو مجھے یوٹیوبرز کا کردار سمجھ نہیں آتا، یہ صحافت کے کس زمرے میں آتے ہیں؟
یوٹیوبر کا لیا گیا یہ انٹرویو واضح طور پہ سستی شہرت کے لیے کی گئی تگ و دو کی تصویر پیش کرتا ہے۔ یو ٹیوبر اس قدر خوش تھی جیسے جنگ سے فاتح لوٹنے والوں کا انٹرویو لے رہی ہو۔ بے شک اس انٹرویو پہ بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور اس پہ رائے دینے میں، میں نے تاخیر اس لیے کی، کہ میں عوام کا ردعمل دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا ہمارے معاشرے میں اب عزتوں کو پامال کرنے پہ داد دی جاتی ہے یا آج بھی ہم اپنی فرسودہ ہی سہی، مگر معاشرے کو قائم رکھنے والی روایات کے پاسدار ہیں؟
انٹرویو کے بعد جہاں یو ٹیوبر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف سننے میں آیا ہے کہ دعا اور ظہیر کی نام نہاد سچی محبت پہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کا ٹریلر ریلیز ہو چکا ہے۔ جو اس وقت شدید تنقید کے ہالے میں ہے۔ مجھے یہ بات برملا کہنے میں بالکل بھی عار نہیں کہ میری ہمدردیاں دعا کے والدین کے ساتھ ہیں، مکمل نہیں تو بہت حد تک ان کے بیانات میں صداقت ملتی ہے۔
والدین کا غصہ اور ڈانٹ احساس دلاتے ہیں کہ دنیا میں دو انسان ایسے بھی ہیں جو خود سے بڑھ کر اولاد کی فکر کرتے ہیں۔ چھوٹا بچہ جب ماں باپ کی گود میں ہوتا ہے تو وہ خود کو ہر خطرے سے محفوظ سمجھتا ہے۔ عجیب بات ہے وہی بچے بڑے ہو کے ماں باپ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ مجھ پہ تشدد کرتے ہیں مجھے مارتے پیٹتے ہیں۔ دعا بہت سارے معاملات میں آج بھی جھوٹ بول رہی ہے مگر انٹرویو لینے والی یو ٹیوبر کے میں صدقے جاؤں وہ اس کی ہر بات پہ یوں آمین کہہ رہی تھی جیسے یہ اس کے دل ہی کی آواز ہو۔
سب سے پہلے تو دعا کی عمر کے نکتے پہ آتے ہیں۔ یہ لڑکی آغاز میں کہتی رہی کہ یہ بالغ ہے اٹھارہ سال کی ہو چکی ہے اس لیے مذہب اور قانون اسے اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی رضا سے جس سے چاہے، شادی کر سکتی ہے۔ اگر اس بات میں سچائی ہوتی تو یہ مقدمہ پہلے ہی ختم ہو جاتا مگر اس کے والد نے ثبوت کے ساتھ کہا کہ اس کی عمر چودہ سال ہے 2005 کا نکاح نامہ، 2008 میں دعا کی پیدائش کا برتھ سرٹیفکیٹ، نادرا کا بے فارم، پاسپورٹ، مگر آفرین ہے دعا پہ، وہ ہر ثبوت کو جھٹلاتی اور کہتی رہی کہ میرے والد جھوٹ بول رہے ہیں۔
سندھ کورٹ میں پیش ہوئی میڈیکل رپورٹ میں جب کہا گیا کہ یہ لڑکی سولہ سے سترہ کے لگ بھگ ہے تو اب انٹرویو میں محترمہ کا بیان سنیے کہ میں سترہ سال کی ہوں۔ دعا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس کے والدین کی شادی 2005 میں ہوئی تھی یعنی اس بات پہ اس کے والد سچے ثابت ہوئے مگر یو ٹیوبر کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ اگر شادی 2005 میں ہوئی ہے تو پھر دعا کی پیدائش 2008 میں کیسے ہو سکتی ہے؟
لیکن یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ شادی کے اگلے سال اولاد ہونا لازم ہے، کئی بار تو دس دس سالوں کا فرق آ جاتا ہے۔ چلیں اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لڑکی 2006 ہی میں پیدا ہوئی تو تب بھی اس کی عمر 2006 سے 2022 تک سولہ سال بنتی ہے جبکہ دعا نے انٹرویو میں کہا کہ میں سترہ سال کی ہوں۔ مگر اس کے والدین شروع سے اب تک اسی بات پہ قائم ہیں کہ ان کی بیٹی چودہ سال کی ہے اور ان کا نکاح 2005 میں ہوا تھا۔
دوسرے نکتے کی جانب بڑھتے ہیں۔ ظہیر کے مطابق اس نے حال ہی میں ایف ایس سی کی ہے مگر دعا کی تعلیمی حالت کا کہیں ذکر نہیں، نہ والدین کی طرف سے، اور نہ ہی دعا کی طرف سے، کہ یہ لڑکی کہاں تک تعلیم حاصل کر چکی ہے یا کر رہی ہے؟ کراچی جیسے بڑے شہر میں بچوں کی تعلیم سے دوری ممکن ہی نہیں اور پھر پڑھے لکھے گھرانوں میں ایسا ہو بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
ظہیر کے بقول وہ بے روزگار نہیں بلکہ ماہانہ ساٹھ سے اسی ہزار کما لیتا ہے۔ حال ہی میں اس نے ایف ایس سی مکمل کی ہے اور وہ آئی فون کی ریپرنگ اور خرید و فروخت کا کام کرتا ہے جس سے ماہانہ وہ اچھی خاصی رقم کما لیتا ہے۔ اس ایک بات سننے کے بعد مجھے ملک کے حکمرانوں اور معیشت دانوں پہ حیرت ہونے لگی جو خواہ مخواہ ملک دیوالیہ ہونے پہ بین کر رہے ہیں اور بے روزگار لوگ یونہی خودکشیاں کر رہے ہیں۔
جبکہ ایک ایسا روزگار جس میں تعلیم کی بھی کوئی حد مقرر نہیں، انکم بھی ٹھیک ٹھاک ہے لوگ اس پیشے کی طرف کیوں نہیں آتے؟ ماہانہ ساٹھ سے اسی ہزار کمانے والا لڑکا تو والدین کے لیے نعمت ہے دعا زہرا کے والدین کو بھی اسے فوری قبول کر لینا چاہیے۔ دعا زہرا کا ایک بیان یہ بھی تھا کہ وہ پب جی گیم کھیلنے کی شوقین تھی اور اسی کھیل کے دوران اس کا تعلق ظہیر سے بنا، وہ گیم کے چیٹ روم میں بات چیت کیا کرتے تھے پھر دونوں نے نمبروں کا تبادلہ کیا۔
ہم دونوں کا تعلق شادی کی خواہش تک آ پہنچا جبکہ والدین اس کی شادی اس کے تایا زاد زین العابدین سے کروانا چاہتے تھے جبکہ اس نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ظہیر رشتہ لے کر آنا چاہتا ہے اس سے ایک بار مل لیں۔ مگر انھوں نے ایک نہ سنی، تشدد کیا، مارا پیٹا، ٹیبلٹ لے کر رکھ لیا والدین کے تشدد سے تنگ آ کے وہ گھر سے بھاگ گئی۔
انٹرویو میں دئیے بیان میں زہرا نے یہ بھی کہا کہ لاہور آنے سے پہلے وہ کسی طور بھی ظہیر سے نہیں ملی تھی، نہ ہی اسے دیکھا تھا تو دعا زہرا کی حمایت کرنے والے کیا بتا سکتے ہیں کہ کیا آج کے دور میں ایسا ممکن ہے کہ بنا دیکھے شادی کر لی جائے؟ محبت اندھی ہوتی ہے اس قول پہ کان دھرتے ہوئے اس نا ممکن بات کو بھی ہضم کر لیتے ہیں مگر پیسے نہ ہونے کے باوجود یہ لڑکی سندھ سے پنجاب آ گئی؟ گھر کے اندر سے کیسے نکلی؟
اس کی کوئی تفصیل نہیں، مگر باہر نکل کر آٹو پہ بیٹھی اور ٹیکسی اسٹینڈ اتر گئی، سفر بے شک مختصر تھا مگر آٹو والے کو پیسے کہاں سے دئیے؟ اس کے بعد ایک جوان سال لڑکی جس کے پاس لاہور شہر میں مطلوبہ جگہ کا پتہ موجود نہیں نہ ہی اس نے ظہیر کو دیکھا ہے وہ بحفاظت لاہور پہنچی اس بے یقینی اور نفسا نفسی کے دور 25، 26 گھنٹوں کا سفر حفاظت سے طے گیا، سندھ سے پنجاب اور پنجاب سے لاہور آ گئی۔
پنجاب یونیورسٹی پہنچ کر کسی طالب علم کے فون سے ظہیر سے رابطہ کیا تو وہ ظہیر جو اس سارے معاملے کی نوعیت سے بے بہرہ تھا فوراً جا کے دعا کو عزت سے اپنے گھر لے آیا بائیس ہزار ٹیکسی کا کرایہ بھی ادا کیا، گو کہ وہ دعا کے گھر کے بھاگنے والے معاملے سے انجان تھا اس کے باوجود وہ اسے اپنے گھر لایا اور فرقے کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظہیر کے گھر والوں نے دعا کو بخوشی قبول کر لیا۔ اس کا نکاح پڑھوا دیا، اسے بیٹیوں جیسی محبت اور عزت دی مگر جب پولیس نے چھاپے مارے تو دعا بی بی شوہر سمیت لاہور کی بجائے بہاولپور سے برآمد ہوئیں۔
پہلے انٹرویو میں دعا نے یہ ساری باتیں اس خوبصورتی اور آسان فہم انداز میں بیان کیں، جیسے جواں سال لڑکی کا گھر سے نکلنا اور ہوس سے بھرے اس ظالم معاشرے میں تن تنہا رہنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہو اگر حالات ایسے ہی تسلی بخش ہیں تو کراچی اور لاہور شہر میں زنا اور جنسی تشدد کی خبریں تو پھر افواہیں ہوئیں۔ ان دو بڑے شہروں میں خواتین اپنے بچوں کے ساتھ اپنی ہی گاڑی میں محفوظ نہیں۔
جی ٹی روڈ پہ گزشتہ برسوں میں ہوا حادثہ کون فراموش کر سکتا ہے؟ مگر دعا کا کہنا ہے کہ وہ بحفاظت اکیلی لاہور پہنچ گئی کیونکہ وہ ایک اسلامی نیک کام کرنے جا رہی تھی جو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور اس کی مدد فرمائی۔ (جاری ہے)