Pakistan Ki Siyasi Jamaten (2)
پاکستان کی سیاسی جماعتیں (2)
جس نے جو جو کیا اس سے بھی بدتر بھگتا ہے مگر اس سب میں ملک اور قوم کیوں پس رہی ہے ہم جو عام لوگ کسی گنتی میں نہیں آتے، ہمارا کیا قصور ہے؟ ملک دن بہ دن بد سے بدحال ہو رہا ہے مہنگائی عروج پہ ہے ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں تعلیم کا فقدان ہے سڑکوں کی حالت تو یوں ہے گھر سے نکلو تو گردوغبار میں ڈوب جاؤ ٹوٹ پھوٹ کا تو اللہ مالک، سرکاری املاک کا کوئی پرسان حال نہیں۔
لاقانونیت کا راج ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ کئی سال پہلے تھا اب زمانہ بدحالی میں تو، نہ کسی کی لاٹھی اور نہ کسی کی بھینس والا حال ہے لوگ بھوکے مر رہے ہیں، سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ بین الاقوامی لحاظ سے ہم دہشت گرد ممالک کے زمرے میں آتے ہیں گو یاکہ اسلام کے نام پہ لڑ رہے ہیں، مگر مغرب والے کم عقل لوگ ہماری دینی جنگ کو دہشت گردی کہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ توڑ دیں اگر وہ ہم سے روابط توڑنا چاہتے ہیں تو۔
خیر ابھی بیرونی دنیا کی فکر کیوں کریں؟ اپنا ملک تباہی کی لپیٹ میں ہے۔ اپوزیشن نے اس وقت عمران کی حکومت گرانے کی سعی کر رکھی ہے اس کے لیے وہ جان توڑ کوششیں کر رہے ہیں، فوج خاموش ہے اس طرف سے کسی قسم کا کوئی تبصرہ سامنے نہیں آ رہا۔ یوں لگتا ہے عمران حکومت کی سرپرستی انھوں نے ترک کر دی ہے ورنہ اسی فوج کے دست سایہ عمران نیازی نے بڑے بڑے امتحان سر کر لیے تھے۔
عدلیہ ویسے مجبور ہے کیونکہ ہمارے ملک میں آزاد عدلیہ کا صرف دعویٰ ہی کیا جاتا ہے جبکہ عدلیہ ہر مقام اور موڑ پہ عہدے داروں کی رکھیل رہی ہے عدلیہ کی تو اتنی جرات نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا حکمران پہ دائر کیس کا فیصلہ حکومت کی رضامندی کے بغیر سنا سکے۔ کل شام کو ہمارے یہاں کچھ مہمان بھی مدعو تھے۔ ملکی بحث عروج پر تھی ایک سوال یہ اٹھا بھئی یہ آخر لوگ کون ہیں جن کے بل بوتے پہ سینکڑوں کا مجمع ٹی وی چینلز جلسوں میں دکھا دیتے ہیں کیونکہ میں اگر اپنے اردگرد نظر دوڑاوں تو مجھے قریب تو کیا، دور دور تک کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو جلسوں کی زینت بنا ہو۔
جواب ملا یہ وہ ساٹھ فیصد عوام جو بے روزگار اور روٹی کو بلک رہی ہے انھیں بریانی اور قورمے کی پلیٹوں کے لالچ دکھا کر اور دو سو روپے دہاڑی پہ اکٹھا کیا جاتا ہے، جب صرف نعرہ بازی کرنے پہ بوٹی والے چاول اور ساتھ جیب خرچ ملے تو برا کِسے لگے گا؟ اور آج کی تازہ خبر کے مطابق تو جلسوں میں ناشتہ بھی کیا کمال کا دیا جا رہا ہے مفت کے پکوان کِسے قبول نہیں۔
بات بھی درست ہے بےروزگاری اور بھوک تو حرام کام تک کروا دیتی ہے یہاں تو کام فقط تقریریں سن کے نعرے لگانے تک کا ہے۔ جن کے منہ سے نوالے چھین کر یہ حکمران اپنے محل کھڑے کرتے ہیں وقت پڑنے پہ انھیں مفت میں پکوان بھی کھلاتے ہیں۔ نواز حکومت کو گرانے کے لیے بھی جب عمران خان سرگرم عمل تھا۔ تب بھی میرا یہ ہی کہنا تھا کہ اس طرح حکومت کو گرانے سے سوائے بین الاقوامی بدنامی اور شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں۔
منتخب حکومت پانچ سال پورے کرے یہ اس کا حق ہے اور ملکی خوشحالی کا موجب بھی، کوئی بھی پارٹی جب برسر اقتدار آتی ہے تو وہ اپنے وقت کے پانچ سالوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے تعلیمی اور معاشی پالیسیاں مرتب کرتی ہے خارجہ پالیسی تشکیل دیتی ہے، خودکفیل ملک اور کمپنیاں ہمارے ملک میں آ کر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بہت جگہوں پہ پیسہ پھنسا ہوتا ہے جو پراجیکٹس کی تکمیل کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے ۔
بہت سارے ترقیاتی کاموں پہ دماغ، وقت اور روپیہ لگایا جاتا ہے اگر حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکے تو یہ تمام پالیسیاں، ترقیاتی منصوبے راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں تو خدارا عقل جو رب تعالیٰ نے استعمال کرنے کے لیے دماغوں میں بھری ہے اسے بروقت استعمال کرنا ہی داناؤں کی شان ہےاور حکومت کو ناکام بنانے والوں کے نام آج بھی میرا یہ ہی پیغام ہے:
کہ اقتدار کی لڑائی لڑنے کی بجائے حق کے لیے آواز بلند کرو ملک ان ہتھکنڈوں سے بدنام ہو رہا ہے اور قوم بےحال۔ غریب کی آہ یوں نہ لو کہ خدا کا غضب بیدار ہو جائے مگر قوم کی حالتِ زار سے ان پیسوں والوں کو غرض ہی کیا؟ کرسی کی جنگ میں تو سب جائز ہے پھر چاہے کسی کو میڈیا پہ جوتا پڑے یا لات۔