Pakistan Ki Siyasi Jamaten (1)
پاکستان کی سیاسی جماعتیں (1)
کل جب گھر واپس آ رہی تھی تو ڈیفنس موڑ لاہور پہ نون لیگ حمایتوں کا ہجوم جمع تھا آٹو والے نے بتایا باجی مہنگائی مکاؤ جلوس نکالا جا رہا ہے یہ سب اپنے اپنے حلقوں سے اکٹھے ہو کر لاہور سے اسلام آباد جائیں گےسڑک پہ نون لیگیوں کا جم غفیر برپا تھا، بےتحاشا گاڑیاں، گاڑیوں سے لٹکے لوگ اور گاڑیوں میں گونج رہے جماعتی ترانے اور نعرے، گھر پہنچنے پہ بھی صورت حال وہی ملی ٹی وی آن کرو تو ملکی سیاست، موبائل پہ بھی وہی داستان۔
ہر ٹی وی نیوز چینل بس ملکی معاملات پہ بحث کر رہا ہے والدہ جو ٹی وی ڈراموں کی شوقین ہیں ہر کسی کو خبروں کے متعلق تبصرے کرتے دیکھ اکتا کے بولیں "عجیب حالات ہیں یہ تو اپنے فائدے کے لیے لڑ رہے ہیں مگر ساری عوام کیوں ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے"میں چونکہ کالج میں تھی اور کچھ مصروف بھی، نیوز دیکھ نہ سکی مگر کالج سے واپسی کے بعد پہلی فرصت میں ہی تمام دن کا جائزہ لیا، ہر پارٹی سربراہ کا خطاب سنا، اور ان کے اتحادیوں کے پیغامات اور خطابات بھی۔
بالآخر صورتحال جو سامنے آئی وہ انتہائی خطرناک تھی، ملک تو جیسے جنگ کے دہانے پہ کھڑا ہے اور جنگ بھی کسی باہر والے دشمن کے ساتھ نہیں، بلکہ خانہ جنگی کا ماحول بنا ہوا ہے۔ ملک کی ایسی خطرناک حالت بنا کر بھی یہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان یوں مسکراہٹیں لیے میڈیا کو خطاب دے رہے ہیں کہ الامان۔ کوئی کسی کو بھگوڑا کہہ رہا ہے تو کوئی کسی کو چور، کوئی کسی کی اردو پہ تنقید کر رہا ہے، تو کوئی دوسرے کو اپنے بچوں کو مادری زبان سکھانے کا مشورہ دے رہا ہے کوئی کسی کو بوٹ پالش والا کہہ رہا ہے تو کوئی کسی کو جادو ٹونے اور فال نکال کر حکومت چلانے والا۔
پاکستان اس وقت بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، تمام دنیا کی نظریں ہم پہ ٹکی ہوئی ہیں بین الاقوامی ایجنسیاں اور ادارے ہماری ٹوہ میں ہیں کہ دیکھیں اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ بہت سارے لوگ میری اس بات سے متفق ہوں گے کہ بھارت ہماری ملکی صورتحال پہ ہنس رہا ہو گا اور بنگلہ دیشی شکر منا رہے ہوں گے کہ رہتے وقت میں وہ اس اندوہناک حالات سے نکل آئے اور ہم سے الگ ہو گئے ورنہ وہ بھی آج تک یہ ہی ڈرامے دیکھ رہے ہوتے۔
یہ حیرت کی بات نہیں، بلکہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ نہ تو بھارت کے سیاسی حالات ہمارے ملک کی طرح دگرگوں ہیں اور نہ بنگلہ دیش کے۔ بھارت کی تو بات ہی چھوڑئیے ان کی سیاست کی قوت دیکھیے ہم 73 سال کے بعد بھی ان سے کشمیر آزاد نہیں کرا سکے مگر 24 سال بعد ہی وہ ہم سے ہمارا آدھا حصہ چھین کے لے گیا ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش بھی بہت سارے معاملات میں کہیں درجے ہم سے بہتر ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال اس وقت ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کی واضح تصویر دکھا رہی ہے کہ ان تینوں جماعتوں کا آپسی جھگڑا ملک کا مفاد نہیں بلکہ اقتدار کا حصول ہے میری والدہ کا کہنا بالکل ٹھیک تھا کہ یہ لوگ تو اپنے فائدے کی جنگ لڑ رہے ہیں انھیں قوم کی زبوں حالی سے کیا غرض؟ اپوزیشن کیا یہ بات نہیں جانتی کہ پاکستان کی معاشی حالت اس بات کی متحمل نہیں کہ الیکشن کروائے جا سکیں ان جماعتوں نے تو وطیرہ بنا رکھا ہے۔
جو پارٹی بھی الیکشنز کے بعد حکومت سازی کرتی ہے ایک سال بعد ہی اس کے خلاف یہ سب سڑکوں پہ نکل آتے ہیں انھیں کیا دلچسپی اس بات سے، کہ بار بار حکومت کا گرنا ملک کی معاشی حالت کو کس حد تک بدحال کر دیتا ہے انھیں تو غرض ہے بس اپنے مفاد سے۔ 2008 کے الیکشنز ہوئے، پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ نون لیگ ڈیڑھ سال بعد ہی سڑکوں پہ نکل آئی احتجاج، لانگ مارچ، جلسے جلوس، اور جانے کیا کیا؟ جب موڈ بنا اسلام آباد کو نکل پڑے۔
2013 کے انتخابات ہوئے نون لیگ کے وارے نیارے ہوگئے تو پی ٹی آئی میدان میں اتر آئی نیا پاکستان، نیا پاکستان کے نعرے لگا کر عوام کو سڑکوں پہ کھینچ لائے۔ کیا عورت، کیا مرد سب ایک ہی رنگ میں موجود ملے ریاست مدینہ کی تشکیل کا خواب دکھانے والا اپنے احتجاجی جلسوں میں مغربی اطوار لے آیا۔ نواز شریف ملک کے اندر تو کیا ملک کے باہر بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔
ان احتجاجی جلسوں کے نتیجے میں رو پذیر ہونے والا ایک واقعہ مجھے بالکل بھول نہیں پاتا جب نواز شریف کو ایک اسلامی جماعت کے زیر اہتمام تقریب میں خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تو سٹیج پہ آتے ہی مدرسے کے ایک کارندے نے جوتا ملک کے وزیراعظم وقت کے منہ پہ دے مارا یہ ایسا شرمناک واقعہ تھا سیاسی جماعتوں نے سوچا بھی نہیں کہ پاکستان کی کیا تصویر پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
ہمارے سیاسی حالات تو دنیا کے سامنے ایک مزاحیہ ڈرامہ بنے ہوئے ہیں نواز شریف نے اپوزیشن میں رہ کر جو کچھ کیا۔ اقتدار میں آ کر اسے وہی بھگتنا پڑا پھر عمران خان نے جو کچھ بحیثیت اپوزیشن کے کیا، اب وہی سب کچھ اس کے ساتھ اپوزیشن کر رہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔
(جاری ہے)