Pakistan Aur Siasi Jang (2)
پاکستان اور سیاسی جنگ (2)
لاہور کی گندگی اور آلودگی، سڑکوں کی حالت، خوف و ہراس کے واقعات، خواتین سے ناروا سلوک، گزشتہ سال چودہ اگست پہ سڑکوں، چوکوں پہ خواتین کے ساتھ ہونے والے نازیبا واقعات اور پولیس کی نااہلی، ڈینگی سے بڑھنے والی اموات کی شرح، سانحہ مری۔ ساڑھے تین سالوں میں کوئی ایسا کارنامہ پی ٹی آئی کا نظر نہیں آتا جسے داد دی جائے سوائے صحت کارڈ کے۔ مگر اس کی بھی کہانی سنئیے یہ کارڈ دراصل چیز کیا ہے اور کیسے ملتا اور کہاں سے بنتا ہے؟
اس کے بارے میں ایک عام شہری کو کوئی علم ہی نہیں صحت کارڈ کے ذریعے کیسے علاج ممکن ہے دراصل شناختی کارڈ پہ ملنے والی صحت کی سہولیات کو پہلے آسان فہم بنایا جاتا تاکہ ہر عام شہری کا اس سے استفادہ آسان تر ہوتا۔ دوسری جانب صحت کارڈ پہ اسپتال میں داخلے والے مریض کی رجسٹریشن ہو جانا کسی بابا جی کے تعویذوں کے بس کی بات نہیں، سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں میں اس کارڈ پہ سفارش کے بنا تو مریض کا اندراج بھی نہیں ہوتا۔
دوسری طرف احساس پروگرام کی بہت دہائیاں دی جاتی ہیں تو احساس پروگرام کے تحت ملنے والے پیسوں کے متعلق اول روز تو بہت ساری شرائط رکھی گئیں۔
مستحقین صاحب جائیداد نہ ہوں
سرکاری ملازم نہ ہو
کوئی گاڑی اس کے نام نہ ہو
وہ بیرون ملک نہ گیا ہو
اول اول تو ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سارے سفید پوشوں نے درخواست ہی نہ دی مگر جب رجسٹریشن کروائی گئیں تو امداد کے حقدار وہ لوگ بھی نکلے جو دو دو گھروں کے مالک تھے وہ مرد حضرات بھی جنھوں نے شوق سے بےروزگاری کا پیشہ اپنا رکھا ہے۔
صحت کارڈ اور احساس پروگرام کے علاؤہ تو پورے ملک میں عمران حکومت کا کوئی اور کارنامہ دیکھنے میں نہ آیا ہاں ناقابلیت کے معاملات بہت سارے سامنے آتے گئے۔
خیر عمران حکومت دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہی اور بالآخر رواں سال میں عمران حکومت کے تمام حریف ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے وہ جو سارے کے سارے کبھی اسپتالوں کے بستر پہ ملتے تھے وہ ایوانوں میں نظر آنے لگے کیا اندرونی یا بیرونی تمام دشمنوں نے کمر کس لی اور ماہ فروری میں سب نے گٹھ جوڑ کیا اور عمران حکومت کے خاتمے کے عدم اعتماد تحریک پیش کر دی گئی۔
اس تحریک کو ناکام بنانے اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی تسکین میں عمران خان نے بہت سارے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کیے، جس سے ایسا سیاسی بحران پیدا ہوا جو ابھی تک پکڑ میں نہیں آرہا۔
ہر دو روز بعد سڑکوں پہ جلوس، میڈیا کانفرنس، سیاسی راہنماؤں کے استعفے، عدلیہ اور فوج پہ الزامات کی بوچھاڑ۔ امریکہ سازش کی آڑ میں عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کاوشیں۔ یہ سارے مسائل بیرونِ ممالک کے سامنے پاکستان کی تاریک صورت دکھا رہے ہیں۔ بھارت اس صورت حال سے محظوظ ہو رہا ہے بنگلہ دیش الگ ہو جانے پہ شکر ادا کر رہا ہے مغرب والے الگ ہماری نادانیوں کے مزے لے رہے ہیں۔
عمران خان 2013 سے بحیثیتِ اپوزیشن سڑکوں پہ یا کنٹینر میں ہی نظر آ رہے ہیں اور موجودہ وقت میں ان کی یہ روش پھر سے زور پکڑنے لگی ہے کبھی وہ بھارت کی تعریف میں خطاب کرتے ہیں تو کبھی روس کے قصیدے پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی سننے کو ملتا ہے کہ امریکہ سازش میں ملوث ہے تو کبھی لندن میں بیٹھا نواز شریف ماسٹر پلاننر ہے عوام کے جذبات کو آگ وہ ہر روز امریکہ کا نام لے کر لگاتے رہتے ہیں آئین پاکستان کے خلاف جا کر، فوج اور عدلیہ کا مذاق بنا کر بھی وہ ابھی تک سکون ہی سانس لینے کو تیار نہیں۔
پاکستان بے شک ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور اس آزاد ریاست کا وزیر اعظم اپنی رضا سے جس بھی ملک کا دورہِ کرنا چاہے، کر سکتا ہے مگر کیا پاکستان آزاد اور خود مختار ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت میں خود کفیل بھی ہے کیا وہ سپر پاور امریکہ کی امداد کے بغیر اپنے قدموں پہ کھڑا رہ سکتا ہے یا امریکہ اور یورپ کے خلاف جا کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے ہم آسان اقساط پہ قرضے لے سکتے ہیں اگر امریکہ اور یورپ ہماری گنی چنی برآمدات کے لیے اپنی منڈیوں کے دروازے بند کر دیں تو کیا پاکستانی معیشت کھڑی رہ پائے گی؟
عمران خان نہ صرف ملک کو اندرونی طور پہ کمزور کرنے کے درپے ہیں بلکہ وہ پوری کوشش میں ہیں کہ پاکستان بیرونی لحاظ سے بھی لڑکھڑا جائے عمران خان کی شخصیت سے متاثر لوگوں کو ملک کی اصلی تصویر تو نظر ہی نہیں آ رہی۔ کہ ملک اندرونی اور بیرونی طور سے اس وقت کس مقام پہ کھڑا ہے ان کے پیچھے نعرے مارنے والے سبھی پاکستانی ٹی وی سٹار جو خود کی نمائش کو محنت کا نام دے کر لاکھوں روپیہ کما رہے ہیں وہ کیا ایک غریب کی بھوک اور افلاس کی اذیت سے واقف ہیں انھیں نہ تو مہنگائی سے غرض ہے، نہ ہی ملک کی معاشی حالت سے، ہنی مون اور گرمیوں کی چھٹیاں غیر مسلم ملکوں میں گزارنے والے ٹی وی سٹار، عمران کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں مذاق اچھا ہے۔
پاکستان بالکل ایک آزاد ریاست ہے بالکل اس مچھلی کی طرح جو سمندر کے نیلے پانی میں آزادانہ دائیں بائیں گھومتی ہے مگر وہ ادنیٰ مچھلی یہ حقیقت ضرور جانتی ہے کہ سمندر میں زندہ رہنے کے لیے مگرمچھ سے دشمنی لینا عقلمندی نہیں بلکہ انتہا درجے کی بیوقوفی ہے اور عمران خان اپنے انتہا درجے کی بیوقوفی اور ہٹ دھرمی سے پاکستان کو کس نہج تک لے جا رہے ہیں بہت سارے دانشور اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں۔