Pakistan Aur Siasat (3)
پاکستان اور سیاست (3)
بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی جنرل یحییٰ خان کو نظر بند کروا دیا بھٹو اپنے دور کا عوام مقبول ہیرو تھا اسے بھی باقی تمام سیاسی راہنماؤں کی طرح آغاز میں بےحد پذیرائی ملی بھٹو نے قوم کو وہ آئین بخشا جس نے دستور سازی کے کام کو حقیقی معنوں میں مکمل کر دیا پاکستان کو ایسا آئین پہلے کسی سیاست دان نے نہ دیا تھا اس کے علاوہ اب کی بار آئین کے کام میں روڑے اٹکانے والا صوبہ مشرقی پاکستان1971 کی جنگ میں ہم سے الگ ہو چکا تھا۔
وہ الگ کیا ہوا آئین بھی مکمل ہو گیا ورنہ مجھے یقین ہے اگر بنگال 73 میں بھی پاکستان کا صوبہ ہوتا تو موجودہ آئین کے بھی پرخچے اڑ گئے ہوتے۔ دراصل مشرقی پاکستان کا بنیادی مسئلہ روز اول سے ہی برابری نہیں، برتری تھا اور وہ برتری انھیں تقسیم تک لے گئی۔ خیر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اس وقت میرا موضوع بحث نہیں اور اس کی تفصیل بھی اس مضمون میں ممکن نہیں مگر ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس متعلق کچھ اور بتاتے ہیں جبکہ بنگال والے اپنے بچوں کو آزادی کی تاریخ کے بارے میں کچھ اور۔۔ تو دوبارہ چلتے ہیں بھٹو صاحب کی طرف، بھٹو کا ایک اور تاریخی کارنامہ قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے باہر کرنا تھا۔
7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی منتخب پارلیمینٹ نے 13 دن کی بحث اور جرح کے بعد ناموس رسالت اور ختم نبوت کا نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک آئینی ترمیم کرکے آئین کے آرٹیکل 260 کی شق نمبر 3 کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سب مسالک فرقوں کے علماء کرام کیساتھ مل کر قادیانیوں کو کافر اور غیر مسلم ڈکلیئر کیا اور ان پر مسلمان کی طرح مساجد بنانے، اذان دینے اور اپنے جھوٹے مذہب کی تبلیغ پر پابندی لگا دی تاکہ قادیانی محدود ہوں اور یہ خود کو مسلمان ظاہر کر کے کم علم مسلمانوں کو دین سے نہ پھیر دے۔
قادیانیت وہ شیطانی فعل تھا جو متحدہ ہندوستان میں پروان چڑھا متحدہ ہندوستان میں برطانیہ نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے ہندوستان کا سروے کر کے برطانوی حکومت کو سفارشات پیش کیں کہ ایک ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام قرار دے اور برطانوی حکومت کی اطاعت کا فتویٰ جاری کرے۔ اس مقصد کے لئے ڈی سی آفس کے کلرک مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا گیا جس کا والد انگریزوں کا وفادار تھا اور اس نے 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کو پچاس گھوڑوں کا تحفہ دیا تھا۔ جب مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تو عالم اسلام میں غصے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ مرزا غلام احمد کا دعویٰ جھوٹا اور بے بنیاد تھا۔
بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بلا خوف و خطر قادیانیت کو دائرہ اسلام سے بےدخل کر دیا اس بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہ اسوقت ملک کے بہت سارے جرنیلز، بیوروکریٹس، بزنس مین اور بااثر لوگ قادیانیت کے پیروکار ہیں بھٹو کے اس آرڈیننس کو موجودہ وقت کے تمام مسلمان علما اور مشائخ متفقہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں اور بھٹو کی لگائی ہوئی پابندیاں قادیانیوں پر آج تک قائم ہیں، لیکن مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ اسلام روایات کی تحفظ دینے والا شخص کسی حد تک عجز و ناز کا شکار ہونے لگا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے مغرب اور مشرق کو الگ کرنے کی ایک اہم وجہ بھٹو کی مجیب سے چپقلش بھی تھی لیکن اس کے باوجود ان کے صاحب اقتدار آتے ہی اپوزیشن نے ان سے مفاہمت کر لی اور ملک کا آئین تشکیل دینے میں بھٹو کا ساتھ دیا مگر بھٹو نے جیسے ہی طاقت پکڑی اپوزیشن سے ہوئی مفاہمت سے پھر سے ہاتھ کھینچ لیا۔ مجیب الرحمان شامی اپوزیشن اور بھٹو کے تعلقات کے متعلق لکھتے ہیں چار اپریل کو جب انہیں پھانسی ہوئی تو ان کے سیاسی مخالفین میں کوئی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
بھٹو کا تکبر اتنا بڑھ گیا کہ اس نے پارٹی کے سینیئر ساتھیوں کی بھی توہین شروع کر دی اس تمام تر مخالفت کے باوجود بھٹو نے سات مارچ سنہ 1977 کو عام انتخابات کروائے۔ آنے والے انتخابی نتائج پر عام پاکستانیوں نے یقین نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 200 میں سے 155 نشستیں ملیں جبکہ حزب اختلاف پیپلز نیشنل الائنس کو اس قدر تشہیر کے باوجود صرف 36 نشستیں ملیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ 1977 کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک اس قدر پُر زور تھی کہ ضیا الحق نے جولائی 1977 کو فوجی طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کر لیا اس وقت نظام مصطفی کے نام پر اپوزیشن والے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف بھرپور تحریک چلا رہے تھے۔ آرمی انچیف جنرل ضیا الحق 1973ء میں میجر جنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر کور کمانڈر بنا دیے گئے۔ اور پھر یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر انھیں پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر کیا گیا۔
بھٹو اس خوش فہمی میں رہے کہ ضیاءالحق ان کا اپنا بنایا ہوا آرمی چیف ہے وہ انھیں کبھی زک نہیں پہنچائے گا۔ ان کی خوش فہمی بجا تھی کیوں کہ بھٹو نے ضیاءالحق کو آرمی چیف بناتے وقت تمام اصول و ضوابط نظر انداز کر دیے تھے چھ جرنیلوں کو سپرسیڈ کر کے ضیاءالحق کو سپہ سالار بنایا گیا۔ ضیاءالحق کی بطور آرمی چیف تقرری بھی دلچسپ ہے۔
مبصرین لکھتے ہیں ضیاءالحق کے پیش رو جنرل ٹکا خان تھے۔ مگر وہ سیاست سے کوسوں دور تھے۔ ایک دن بھٹو نے غلام مصطفیٰ کھر کے سامنے ضیا کو بلایا اور کہا کہ میں آرمی کی کمان آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ جنرل ضیا الحق نے جواب دیا اس وقت آرمی میں پانچ جرنیل مجھ سے سینئر تھے مگر بھٹو بضد رہے کہ میں تمھیں ہی آرمی چیف بناؤں گا اور بعد میں حالات کچھ ایسے بنے کہ قرعہ فال ضیاءالحق کے نام کا ہی نکلا"مؤرخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ "جنرل ضیاءالحق جب بریگیڈیئر کے عہدے پر تھے تو بھی بھٹو کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
ایک بار بھٹو دورے پہ تھے کمرے میں جنرل ضیا سگریٹ نوش فرما رہے تھے وزیراعظم کی آمد کی خبر پا کر جنرل ضیا نے جلتا ہوا سگریٹ اس ڈر سے فوراً اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لیا کہ کہیں بھٹو اپنے سامنے سگریٹ نوشی پہ اس پہ برہم نہ ہو جائیں، بھٹو کو اس حقیقت کا باخوبی علم تھا کہ جیسے پہلے ملک کے حالات رہ چکے ہیں کہ فوجی چیف نے بسا اوقات ملک کی باگ ڈور بہ زور طاقت اپنے ہاتھ لے کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا تو اس بار ضیا ایسی جسارت نہیں کر سکے گا۔ مگر یہ سیاست ہے پیارے، وقت کے سکے نے ایسا پلٹا کھایا کہ بھٹو کو نہ صرف اقتدار بلکہ اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بھٹو کا اپنا پیادہ اس کو مات دے کر راجا بن گیا۔
بھٹو کو 5 جولائی 1977 کو پہلی دفعہ نظربند کیا گیا اور 29 جولائی یعنی چوبیس روز بعد نظر بندی ہٹا دی گئی۔ 3 ستمبر 1977 کو پہلی بار گرفتار کیا گیا اور انہیں 13 ستمبر 1977 کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے اسی عرصے کے دوران ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ "اگر میں رہا ہو گیا تو جنہوں نے آئین توڑا ہے ان کے خلاف آرٹیکل چھ لگاؤں گا"۔ اور پھر اس کے بعد 16 ستمبر 1977 جب انہیں تیسری بار گرفتار کیا گیا تو ان پر قتل میں اعانت کا الزام لگایا گیا۔
(جاری ہے)