Naya Pakistan
نیا پاکستان
مہنگائی کا زور دن بدن، حسین دوشیزہ کے ناز و ادا کی طرح بڑھتا جا رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کسی ایک مخصوص شے میں نہیں، بلکہ پیڑول سے لے کر آٹا، چینی نمک، بجلی اور گیس کے بل غرض ہر شے اس کے زمرے میں آ رہی ہے۔ ملک کا ہر دانشور، جرنلسٹ، ٹی وی اینکر ملک میں بڑھتی مہنگائی کے گوشوارے بتا رہا ہے ،مگر آفرین ،ملک میں تبدیلی لانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم پہ، واحد وہ شخص ہے جس تک ملک وقوم کی حالت کی خبریں ابھی تک نہیں پہنچی۔بس ہر بار وہ ایک ہی بیان دیتے نظر آتے ہیں ملک کو پہلے کے سیاستدان لوٹ کر کھا گئے ملک قرضوں میں ڈوبا ہے۔ میں قوم کا سارا پیسہ ان سے وآپس لوں گا۔
مگر قوم کا پیسہ تو شاید اب کبھی وآپس نہ آئے لیکن قوم پہ جو مہنگائی کا عذاب آیا ہے اس کا ذمےدار کون ہے؟ قوم یا سیاستدان۔ہر آنے والا دن مہنگائی کاایک نیا پیغام لے کر آتا ہے، اگر نمک کسی دکان پہ سستا ہے، تو وہاں چینی مہنگی، آٹا، دال، گوشت، سبزیاں، اشیائے خوردونوش آہستہ آہستہ قوم کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔دو سالوں سے باعث کرونا وبا معیشت تباہ ہو گئی، 2020 تک عوام کی کرونا سے جانیں بچانے والوں نے اسی عوام کو بھوک اور فاقوں کے حوالے کر دیا ،نہ ہوٹل چلنے دئیے، نہ شادی ہال، نہ دکانیں کھولنے کی اجازت دی نہ ہی تعلیمی اداروں کے دروازے کھولنےد یے۔جب سارے کاروبار بند ہو جائیں گے تو ان حکمرانوں سے کوئی پوچھ کے بتا دے عوام کھائے گی کہاں سے؟
اگر وزیراعظم صاحب عوام کو یہ تسلی دے کے نہ گبھرانے کا حکم صادر کریں کہ آسمان سے من و سلویٰ اُتر آئے گا تو یہ بھی یاد رکھیں کہ جیسے ہمارے اعمال اور اس ملک کے حالات ہیں رب تعالیٰ اس دور میں فقط ہمیں بچانے کے لیے مثل موسیٰ کسی کو بھیج ہی دیں تو غنیمت، لاک ڈاؤن کے دور میں چوری اور ڈکیتوں کی وارداتوں کی بڑھتی تعداد بھی حکمرانوں کی آنکھیں نہ کھول سکی اکثر چوریاں تو دن دھاڑے لوگوں کے دیکھتے دیکھتے ہی ہو گئیں کوئی کسی کی سائیکل دکان کے باہر سے لے گیا تو کوئی کسی کی موٹر سائیکل گھر کے باہر سے ہی غائب کر گیا اور بیچارے متاثرہ افراد نے تو اس خوف سے بھی رپورٹ درج نہ کروائی کہ بعد میں پولیس والوں کی جیبیں کون گرم کرے گا ،بہت سارے کیسز یونہی ہوا ہو گئے،مگر وزیر اعظم نے وہی کیا جو بین الاقوامی اداروں سے فرمان جاری ہوئے
ملک میں لاک ڈاؤن لگا کر تمام اداروں کو بند کر کے، مزدور پیشہ لوگوں کا کام بند کروا کے حکومت صرف کرونا کو پھیلنے سے بچاتی رہی اور اس کے مدمقابل ڈینگی یوں آ کھڑا ہوا کہ تباہی مچا دیکاروبار بند کرنے والے وزرا کیا اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ ملک پاکستان کا حکومتی خزانہ کیا اس قابل تھا کہ ملک میں لاک ڈاؤن کرنے کے بعد عوام کو گھر بیٹھا کر روزی و رزق مہیا کرتا، یہ قومی خزانہ تو چوہتر سالوں سے صرف حکومتی عہدیداروں کو ہی فائدہ پہنچا رہا ہے مجال ہے کبھی اس دولت سے عام عوام کا بھلا ہوا ہے اب بھی ہر جا پچھلے گزرے حکمرانوں کی بدعنوانیاں گنوانے میں لگے ہوئے ہیں فلاں دور میں اس حکمران نے لوٹا، فلاں حکومت میں اس نے۔ مگر ان تین سالوں میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کا ذکر بھی کیجئے۔
مہنگائی کا مسئلہ التوا میں ڈال کر باقی کسی ایک بات کی وضاحت دے دیں۔تین سالوں میں ملک میں کونسا ترقیاتی منصوبہ عمل میں لایا گیا ہے بلکہ پہلے سے جاری منصوبے بھی دھرے کے دھرے پڑے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں ان دو سالوں کے دوران تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا۔ بلکہ نجی اداروں میں تو تنخواہیں دو دو ماہ تک نہیں مل رہی۔ بےروزگاری منہ کھولے غریب کو نگلنے کو تیار بیٹھی ہے۔ کتنے ہی بچے والدین نے تعلیم کے خرچے پورے نہ ہونے کی وجہ سے سکولوں سے اُٹھوا لیےاورنج ٹرین، میڑو، موٹروے، سپیڈو جیسی کوئی سروس شروع نہ ہو سکی۔لاہور کی سڑکوں کا حال اب دیکھنے کے قابل بھی نہ رہا۔
ملک کی جانی مانی انجینرنگ کمپنی دو ماہ کی تنخواہیں روک کر ملازمین کو خوار کر رہی ہے، سوال کرنے والوں کو جواب ملتا ہے کمپنی کے پاس کام ہو گا تو پیسے آئیں گے۔ تنخواہوں کے برعکس چیزوں کی قیمتیں دیکھو تو مر جانے کو جی کرتا ہے کیا موجودہ حالات میں بےروزگاری اور افلاس کے ہاتھوں تنگ آئی عوام کی خود کشی کی خبریں کیا گردش میں نہیں ہیں مگر دل کا درد اب کس سے کہیں حالات جوں کے توں ہیں بلکہ آئندہ وقتوں میں دل جگر بڑا رکھیں، مہنگائی مزید ریکارڈ توڑنے والی ہےخان صاحب اپوزیشن سے ملک کا لوٹا ہوا پیسہ وآپس لے کے ملکی خزانہ بھر پاتے ہیں کہ نہیں، اس بارے میں کچھ بھی قطعی طور پہ نہیں کہا جا سکتا ہاں مگر ان کے کیے گئے اقدامات سے عوام ضرور حواس باختہ ہو چکی ہے۔