Naya Aur Purana Saal
نیا اور پرانا سال
اس وقت 31 دسمبر 2022، وقت رات 10:35 کا ہے اور میں یہ سوچ کے اس کالم کو لکھ رہی ہوں کہ یہ کالم لکھا تو 2022 میں جائے گا مگر شائع 2023 میں ہوگا۔ یعنی یہ کالم بھی گزشتہ سال کی یاد بن جائے گا اور جب قارئین اسے پڑھیں گے تو یہ گزشتہ سال کی تاریخ میں لکھی ہوئی تحریر بن چکا ہوگا۔ کیسا انوکھا نظام ہے صرف ایک ہندسہ تبدیل ہوتا ہے اور 365 دنوں کا پرانا سلسلہ ختم ہو کے نیا چکر شروع ہو جاتا ہے۔ حساب لکھنے والوں نے کچھ سوچ کے ایک سال کو 365 دنوں میں مکمل کر لیا۔
مگر اس وقت مجھے یہ مشکل ہو رہی ہے کہ کس بارے میں لکھوں، 2022 کا ذکر کروں یا 2023 سے وابستہ امیدیں اور خواب لکھوں۔ ویسے تو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہو، مگر ہر بار ہوتا اس کے برعکس ہے کیونکہ ان دیکھے وقت کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنا انسان کے بس میں کب ہے، وہ وقت بسا اوقات ہمارا ہو بھی نہیں پاتا اور انسان اس نئے وقت میں جانے سے پہلے ہی دنیا کے لیے بیگانہ ہو جاتا ہے اور اس دنیا سے رخصت پا کے دوسری دنیا کی طرف چلا جاتا ہے۔ لہٰذا آنے والے وقت کے لیے اچھے خواب دیکھنا مثبت سوچ کی نشانی ہے مگر کبھی کبھی یہ عمل خوش خیالی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔
اور بسا اوقات نہیں بلکہ ہر بار یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم سوچتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے لیکن ہم اچھے وقت کے لیے دعا تو مانگ سکتے ہیں اس کے بعد فیصلہ مالک کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ہماری دعائیں سنے یا ہمارے وقت کو اپنی رضا کے مطابق ڈھال دے۔
تو چلیں گزشتہ سال کی بات کر لیتے ہیں اس کا ذکر تو ہم وثوق سے کر سکتے ہیں کیونکہ ماضی کا ہر لمحہ ہماری دسترس میں ہوتا ہے۔ ہم نے کیا سوچا تھا؟ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا ہو سکتا تھا؟ ہم اسے بدل سکتے تھے یا اس کا تبدیل ہونا ناممکن تھا۔
ماضی کا ذکر کرنا آسان بھی ہوتا ہے مگر تکلیف دہ بھی۔ کیونکہ ہر ذی شعور کے لیے گزرا وقت ایک سبق کی مثل ہوتا ہے جس کی یاد وہ آنے والے وقت کے لیے بچا کر رکھتا ہے۔ گزشتہ سال کا بھی ایک ایک دن ہمارے لیے سبق تھا مگر کیا ہم ان اسباق کا اطلاق اپنے آنے والے وقت پہ کرتے ہیں اگر میں اپنی بات کروں تو شاید میں تو گزشتہ دنوں سے حاصل سبق کا اطلاق اپنے آنے والے وقت پہ نہیں کرتی۔ مجھ جیسے جذباتی لوگ اسی لیے تو تعلقات میں نقصان اٹھاتے ہیں جو ذرا سی نرمی پہ پگھل جاتے ہیں اور لہجوں کی تلخی سے چوٹ کھا کے زخمی ہو جاتے ہیں اور کئی کئی دن مسکرانا بھول جاتے ہیں۔ گزرا وقت بےشک تلخ ہو مگر پھر بھی عزیز ہوتا ہے کیونکہ اپنا ہوتا ہے۔
میری والدہ انتہائی سادہ خاتون ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوشیاں ڈھونڈنا سیکھنا ہو تو کسی چھوٹے بچے کے ساتھ وقت گزار لو یا کسی سادہ خاتون کی گفتگو سن لو۔ یہ دونوں آپ کو زندگی جینا سکھا دیں گے۔ بالکل یہ ہی معاملہ میری والدہ کے ساتھ بھی ہے بچپن سے وہ ہمیں یہ ہی بتایا کرتی تھیں کہ نئے سال کے پہلے دن اچھے کام کرو، عبادت کرو، خوش رہو، محبت بانٹو، تاکہ محبت پلٹ کے واپس تمھارے پاس آئے، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ نئے سال کے پہلے دن جو بھی کرو، وہی کام سارا سال کرنے کو ملتا ہے اس لیے وہ ہمیں خوش رہنے کی نصیحت کرتیں، تاکہ پورا سال ہم خوش رہیں۔
آج 2022 جب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے تو میں اس فارمولے کو یاد کر کے من ہی من مسکرا رہی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ اگر یہ فارمولا واقعی ہی 364 دنوں پہ کارگر ہوتا ہے تو کون پاگل نہ ہوگا جو اس فارمولے کا اطلاق نئے سال کے پہلے دن کر کے اگلے 364 دنوں کو دکھوں سے محفوظ نہ کرے۔ میں نے بسا اوقات اس فارمولے کے مطابق نیا سال ڈھالنے کی خواہش کی مگر یہ بات بھی برحق ہے کہ قدرت فقط اس فارمولے کے لیے اپنے فیصلے نہیں بدلتی۔
قدرت کی من مانی کے آگے تو سب ہی فارمولے زیر و زبر ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم خواہش تو کر سکتے ہیں کہ جیسا نئے سال کا پہلا دن خوشی سے گزرا ہے ویسا پورا سال بھی گزرے اس سوچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ ہر گزرتا لمحہ ہمیں بہت تیزی سے اس زندگی سے دور لے کر جا رہا ہے۔