Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Nafsiyati Mareez

Nafsiyati Mareez

نفسیاتی مریض

چونکہ میرا واسطہ شعبہ تدریس سے ہے اور میں اس رتبے اور شعبے کو خدمت خلق کی طرح مانتی ہوں۔ لہذا کالج میں بچیوں کو پڑھانے کے علاوہ مختلف امورِ زندگی کے متعلق ان کی رائے بھی سنتی ہوں اور انھیں ان کی غلطیاں بھی بتاتی ہوں۔ آج صبح ایک بچی میرے پاس آئی۔ اُس کی آنکھیں نم تھیں۔ وجہ پوچھی۔ تو کہنے لگی۔ میم کالج آنا مشکل ہو گیا ہے۔ آپ ایک ہفتے کے نوٹس مجھے دے دیں۔ یا پھر اپنا نمبر۔ اگر آپ کو بہتر لگے تو میں فون پہ آپ سے روز کا لیسن لے لوں گی۔

میں نے پوچھا ایسا کیا مسئلہ ہے بھئی۔ وہ بھرائی آواز میں بولی۔ میم گھر میں صبح کے وقت کوئی چھوڑنے والا نہیں ہوتا۔ ابو صبح آٹھ بجے دفتر چلے جاتے ہیں۔ دو بھائی چھوٹے ہیں۔ سکول جاتے ہیں۔ خود کالج آنا پڑتا ہے۔ راستہ سیو نہیں رہا۔ سپیڈو کے انتظار میں جب سٹاپ پہ کھڑے ہوتی ہوں۔ تو پتہ نہیں کیا عالم ہے۔ یا تو کبھی کوئی موٹر سائیکل والا ذرا قریب آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یا پھر کبھی کوئی گاڑی والا۔ اور بس اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ان کو توجہ ملے۔ جب کبھی غلطی سے اُن کی طرف دیکھ لیا جائے تو آنکھ سے باقاعدہ اشارہ کیا جاتا ہے کہ آ کر بیٹھ جاؤ۔ اور میم تقریباً دوسرے تیسرے دن ایسا ہوتا ہے اور کوئی ایک ہی شخص نہیں بلکہ سٹاپ پہ الگ الگ لوگ اردگرد نظر آتے ہیں۔ کبھی بائیک ہوتی ہے کبھی گاڑی۔ اور آج تو ایک بائیک والا بالکل پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔ چلتی ہے ہزار روپے دوں گا۔

میم کیا میں۔۔۔ وہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ اور مجھے سمجھ نہ آئی کہ اسے اب تسلی کے طور پر کیا کہوں۔ کیونکہ بقول اُس کے، وہ یہ بات گھر نہیں بتانا چاہتی ورنہ گھر والے پریشان ہو جائیں گے اس لیے ہفتہ دس دن چھٹی کرے گی۔ میں نے اُسے اپنا نمبر دے دیا۔ کہ وہ کتاب سے متعلق جب چاہے مجھ سے رابطہ کر سکتی ہے۔

مگر یہ مسئلہ فقط میری ایک سٹوڈنٹ کے ساتھ نہیں۔ اور بھی کالج کی لڑکیاں اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ سب کا یہ ہی کہنا ہے کہ سٹاپ پہ کھڑے جب وہ بس یا آٹو کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں تب یا تو کوئی بائیک یا گاڑی قریب آ کے رک جاتی ہیں۔ جیسے وہ سڑکوں پہ اسی مقصد سے پھر رہے ہوں۔ کہ کب کوئی اکیلا شکار نظر آئے تو اسے ہراس کرے۔ اب واللہ عالم اس طرح کرنے سے اُن کا ارادہ کیا ہے؟ کیا چاہتے ہیں۔ صرف جوان لڑکیوں یا عورتوں کو بائیک یا گاڑی پہ بٹھا کر لفٹ دینا اور انھیں اُن کی مطلوبہ منزل تک پہنچانا تو اُن کی سوچ نہیں۔ اس نیکی کا انھیں کچھ تو صلہ چاہیے۔ اب اسے صلے کی چاہ کتنی لڑکیوں کے لیے عذاب بن رہی ہے۔ انھیں اس سے کچھ غرض نہیں۔ جو اُن کے ساتھ آمدورفت کرتی ہیں۔ وہ کون ہیں؟ اور کیوں اُن کو یہ لگتا ہے کہ سب ہی اُن کی سواری میں بیٹھ جائیں گی۔ ایک معمہ ہے میرے لیے۔۔ میں خود بھی اس پہیلی کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر یہ لفٹ دینے کے بعد کا معاملہ کیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے تک تو ہم نے سڑکوں پہ مرد حضرات کو لفٹ مانگتے دیکھا ہے۔ مگر اس مدد کے طلبگار بھی بہت سارے لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔ جو سنسان راستوں پہ لفٹ کی غرض سے سواری رکواتے ہیں۔ بعد میں نہتے مجبور لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ مگر یہ تو معاملہ مختلف ہے۔ لفٹ دینے والا خود آفر کرتا ہے کہ وہ آپ کو مفت مطلوبہ منزل تک پہنچائے گا۔

اس صورتِ حال کو پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والی جوان لڑکیاں و خواتین بہتر سمجھ سکتی ہیں۔ مگر اُن میں سے کئی تو میری طرح لاعلم ہیں۔ کہ سواری پہ بٹھانے کے بعد آگے کا مرحلہ کیا ہو گا۔ مگر یہ سٹاپ پہ کھڑی خواتین کو ہراس کرنے کا مسئلہ موجودہ وقت میں اب مزید سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سڑکوں پہ پولیس تعینات کی جائے۔ اور پولیس بھی وہ دیانتداری سے فرض ادا کرنے والی ہو۔ جن کے خوف سے جرائم پیشہ لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوں۔

پولیس کی خدمات سے متعلق ایک خبر چند گھنٹے پہلے میری نظر سے گزری۔ تفصیلات کے مطابق پٹرولنگ آفیسر انصر نے شادمان بس سٹاپ پر خواتین کے سامنے اپنے کپڑے اتار کر نازیبا حرکات کرنے والے ملزم عبدالشکور کو گرفتار کرلیا، پولیس نےعبدالشکور نامی ملزم کےخلاف مقدمہ درج کرکےحوالات میں بند کردیا، سی ٹی او منتظر مہدی کا کہنا ہے کہ خواتین کو قول و فعل سے ہراساں کرنے والے سے رعائت کے مستحق نہیں، ایسے تمام ناسوروں کے خلاف کارروائی کےلئے ہدایات کر دی گئیں ہیں۔ چونکہ پچھلے دس دن پہلے خواتین کے تحفظ کے مسائل پہ پولیس محکمے کی خدمات پہ بےحد سوال اٹھائے گئے۔ اعلٰی افسران معطل کیے گئے۔ اور اُن کے فرائض کی جانچ پڑتال کی گئی۔ لہذا اب پولیس گلیوں، بازاروں سے ان معاشرے کے ناسوروں کو گاہے بگاہے پکڑ رہی ہے۔ تاکہ اُن کی وردیاں محفوظ رہ سکیں۔ حالانکہ اس ملزم یا ان جیسوں کی اخلاقیات سے گری ہوئی حرکات فقط ایک دن کی بات نہیں۔

یہ تو آئے دن کا معمول ہے۔ میں یہ ہی صورتحال آدھا گھنٹہ پہلے اپنی کولیگ سے ڈسکس کر رہی تھی تو اُس نے کہا۔ یہ سچ ہے ایسی ہی صورتِحال سے میں خود بھی گزر چکی ہوں۔ مسلم ٹاؤن والے علاقے میں پل کراس کرتے ہوئے ایک آدمی یونہی بنا لباس میرے سامنے آ گیا۔ اور وہ اپنے جسم کے حصوں کو نمایاں کر رہا تھا۔ اور حیرت کی بات وہ جب کوئی اکیلی عورت کو دیکھتا۔ تب ایسا کرنا شروع کر دیتا۔ میں نے پل سے اتر کر نیچے کھڑے ڈولفن پولیس نمائندے کو بتایا۔ تو وہ بولا میڈم۔ جب اس کے خلاف کاروائی کرتے ہیں۔ تب اسے بچانے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اور پاگل پاگل کہہ کر چھڑوا لیتے ہیں۔ ہم کیا کریں۔ کئی بار اس کی چھترول بھی کر چکے ہیں۔ مگر وہی بات گندی فطرت اس نامرد کی جوں کی توں ہی رہی۔

میں نے غصے سے کہا۔ پھر یہ ہی پاگل شہ ملنے پہ پہلے ریپ کرتے ہیں۔ بعد میں قتل۔ اور پھر پاگل بن کے یہ اور ان جیسوں کے حمایتی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ المیہ ہے ناں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں نہ تو قانون ہے نہ ہی انصاف۔ نفسیاتی مریض سڑکوں پہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ جبکہ ان مریضوں کا اصل ٹھکانہ مینٹل ہاسپٹل اور علاج الیکڑک شاکس ہیں۔

Check Also

Imf Aur Pakistan, Naya Magar Shanasa Manzar

By Khalid Mehmood Rasool