Mushkil Kusha
مشکل کشاء
آج ایک عرصے بعد قلم اٹھایا، ستمبر کے وسط سے میں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ پہلے کچھ ذاتی مصروفیت تھی کہ لاکھ چاہت کے باوجود بھی لکھنے کی جانب توجہ ہی نہ دے سکی، اس کے بعد کی مصروفیت بھی کچھ اسی نوعیت کی تھی۔ سوچا کہ کچھ عرصہ اب اپنے آپ کو صرف وقت دینا چاہیے۔ اور یوں قلم اور کاغذ سے رابطہ معدوم ہوگیا۔ لیکن ہم جیسا چاہتے ہیں ویسا ہوتا کب ہے؟ ہماری چاہتیں ہمارے مقدر سے جڑی ہیں اور مقدر کی ڈور تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
وہ بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے، اور کیا غلط؟ ہم عقل و سمجھ رکھنے کے باوجود بھی اسکے راز و نیاز سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی یہ نہیں دیکھ پاتے کہ جو وہ ہم سے چھین رہا ہے یا ہمیں نہ دینے کا ارادہ کر چکا ہے، وہ فیصلہ ہمارے مستقبل کے لیے کیسا بہتر ہے؟ اسی لیے تو ہم ہر بات میں اس کی رضا کے محتاج ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر ہر فیصلہ ہمارے ہاتھ میں دے دیا تو ہم خود کو ہی تباہ کر لیں گے۔ اور اسی لیے وہ ہمارا ربّ ہے کیونکہ وہ سب جانتا ہے۔
لیکن بسا اوقات کچھ لوگ زندگی میں ہمیں ایسے بھی ملتے ہیں جو ہمارے حق میں برے نہیں ہوتے، بس وہ ہمارے مقدر میں نہیں ہوتے، یا پھر وہ کسی اور مقدر میں پہلے سے لکھے ہوتے ہیں، ہم لاکھ دعائیں مانگیں، منتیں کریں، وظیفے پڑھیں مگر وہ ہمیں نہیں ملتے اور اگر کبھی ایسا ہو بھی جائے کہ ہماری ضدی مناجاتیں عرشِ بریں کے در سے جا ٹکرائیں، اور قبولیت لے کر ہی لوٹیں، تب بھی وہ شے یا انسان فقط عارضی مدت کے لیے ہمیں سونپا جاتا ہے کیونکہ اس کو مقدر سے چرا کر ہمیں بخشا جاتا ہے۔
مقدر اور خواہش کی جنگ صدیوں پرانی ہے، مقدر اوپر والے کے اختیار میں ہے اور خواہش انسان کی سوچ اور خیال کی قید میں۔ خواہش تکمیل کے مقام کو چھونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے اور مقدر بھی وقتاً فوقتاً اپنے ہونے کا پتہ دیتا رہتا ہے کہتا ہے کہ میں انسان کی ہاتھ کی لکیروں میں چھپا ہوا ہوں مجھ سے بچ کے آخر جاؤ گے کہاں؟ جو کام بھی کرو گے وہ ہاتھوں کے بنا ممکن ہی کب ہے؟ اور جب ہاتھ استعمال کرو گے تو وہاں مجھے پاؤ گے۔
کہتے ہیں عقلمند وہ ہے جو مقدر کے لکھے پہ صبر کر لیتا ہے اور ربّ کی رضا میں راضی رہتا ہے مگر میں سوچتی ہوں کیوں پھر ربّ نے انسان کو دعا مانگنے کا اختیار بخشا اور کہا کہ جب جب انسان دعا مانگتا ہے میں اس کا مقدر بدل دیتا ہوں کیونکہ دعا مقدر بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان تین چار ماہ میں، میں نے خدا کی ایسی قدرت کا ذائقہ چکھا کہ میں بے انتہا دکھ کی گہرائی میں بھی یہ ماننے پہ مجبور ہوگئی کہ وہ اپنے بندوں کو کبھی برے لوگوں کا نشانہ بننے نہیں دیتا۔ کسی پاکیزہ اور راست گو کی عزت پہ حرف نہیں آنے دیتا، بس ہم اس کے رازوں کو سمجھ نہیں پاتے اس کے شانِ شایان عزت و مرتبہ نہیں دیتے۔ وہ تو وہ ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے، بس ہم اسے محسوس نہیں کرتے۔
اسکی موجودگی کو اہمیت نہیں دیتے مگر ہماری لاپرواہی کے باوجود بھی وہ ربّ کبھی بھی ہمیں اپنی رحمتوں سے بے دخل نہیں کرتا، سورج ازل سے آج تک ہر انسان کے لیے یکساں چمکتا ہے، ہوا سب انسانوں کو ایک سی ٹھنڈک دیتی ہے، چاند کی روشنی سب کو برابر ملتی ہے رزق کے فرشتے کسی انسان سے بیر نہیں رکھتے، پیدائش اور موت کا نظام ہر انسان کے لیے ایک سا ہی ہے ہم چاہے، گناہ گار ہوں یا نیک فطرت، ربّ کی محبت ہم سب کے لیے ایک جیسی ہے۔
ہم انسانوں کی محبت پہ غرض حاوی ہے جبکہ اس کی محبت بے غرض اور بے لوث ہے۔ خدا نے کیسا خوبصورت نظام تخلیق کر رکھا ہے کہ ہم گناہ کرتے ہیں۔ اور وہ ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی۔ یہاں تک کہ ہمارے گناہ فرشتوں سے بھی پوشیدہ رکھ کر وہ رحمتیں ان کے ہاتھ ہم تک بجھوا دیتا ہے۔ سبحان اللہ!
آج جب چار ماہ بعد لکھنے کا قصد کیا تو چاہا کہ پہلے شکرانے کے طور پہ اس ربّ کی شانِ اقدس میں لفظوں کا نذرانہ پیش کروں، جس نے میرے قلم کو طاقت بخشی اور اس کی رحمت کے باعث آج میں پھر سے لکھنے کے قابل ہو پائی، ورنہ وہ چاہے تو یہ صلاحیت مجھ سے چھین بھی سکتا ہے، مگر وہ جو رحیم صفت کا مالک ہے وہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ مجھے اور میرے قلم کو طاقت بخشتا ہے تاکہ میری لکھاوٹ میں مزید نکھار پیدا ہو سکے۔