Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Meri Ghalti

Meri Ghalti

میری غلطی

بہت دن ہوئے قلم سے یارانہ ٹوٹے ہوئے، یا یوں کہیے کہ قلم کو ناراض ہوئے۔۔۔۔ لفظ قریب پھٹکتے نہیں۔ جملوں کا ربط ملتا نہیں۔ مگر اس ناراضگی کو اب ختم کرنا ازحد ضروری تھا۔ لہذا میں نے سوچا اپنی غلطی تسلیم کر لی جائے۔ چند دن پہلے قوم نے گریٹر پارک لاہور میں ایک عجیب منظر دیکھا۔ نشانِ آزادی کا غرور مٹی میں ملانے والے دشمن عناصر کی جیت ہو گئی۔

عائشہ اکرم ٹک ٹاکر کے ساتھ ہجوم کی ہراسگی کا واقعہ صرف پاکستانی قوم نے نہیں۔ بلکہ تمام دنیا نے دیکھا۔ ہمسایہ ملک جو تشددِ نسوانیت کے معاملات میں ہم سے چار قدم آگے ہے۔ اُس کی تنقید نے قوم کو سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ کہ ہم جو بیج آنے والے وقت کا قحط مٹانے کے لیے بو رہے ہیں۔ کیا وہ بدذائقہ، بدبودار پھل دیں گے۔ ہماری پرروش اور تربیت میں کمی کہاں ہے؟

عائشہ اکرم کے ساتھ ہراسگی واقعہ کی جو ویڈیو پہلے دن میں نے دیکھی۔ یقین جانیے اوسان خطا ہو گئے۔ کہ اس طرح کھلے عام پبلک پلیس پہ عورت کے ساتھ ایسا سلوک۔ ان مردوں کو چوک پہ الٹا لٹکا کر چھترول کرنی چاہیے۔ تاکہ جب کبھی خواب میں بھی عورت دیکھیں تو احتراماً منہ موڑ کر کروٹ بدل لیں۔ کیونکہ میں اُن لوگوں میں سے نہیں۔ کہ اگر سڑک، موڑ یا چوراہوں پہ مرد عورت کو جنسی ہوس کا نشانہ بنائے تو میں یہ کہہ کر جرم کو ہوا دوں کہ عورت گھر سے نکلی کیوں؟ پردے کا لحاظ کر لیتی تو ایسا نہ ہوتا؟ کیونکہ میرے نزدیک عورت کو گھر میں ہی قید رکھنا اس کو سزا دینے کے مترادف ہے۔ اور عورت اگر مکمل شلوار قمیض اور دوپٹے کے ساتھ یے تو اس کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسگی کا یہ جواب دے دینا کہ پردہ کرتی تو ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔ ملزم کا ساتھ دینے کے برابر ہے۔ مکمل جسم کو ڈھانپے لباس کو دیکھ کر بھی اگر مرد کی ہوس بےقابو ہو تو ایسے وحشی کا علاج پھر جیل خانہ ہے۔ ہاں میں یہ واضح کر دوں کہ یہاں اُن عورتوں کا ذکر نہیں جن کی بےلباسی سے جسم کے حصے عریاں ہوں۔ کیونکہ ایسی عورتیں ہمارے ملک پاکستان میں عام سڑکوں پہ پیدل چلتی نظر نہیں آتیں۔ اُن کے قدردان انھیں کالے شیشوں والی گاڑیوں میں بحفاظت لے کر جاتے ہیں۔ مگر سڑک پہ چلتی عورت کو مفت کا مال سمجھ کر ہوس پوری کرنا اور تشدد کے بعد پردہ نہ کرنے کا الزام دے کر اسی کو قصور وار کہنا سراسر زیادتی ہے۔

کچھ ایسا ہی معاملہ ہم سب نے اٹھارہ اگست کو اقبال پارک میں دیکھا۔ جس کی وجہ سے میری تمام تر ہمدردی خاتون کے ساتھ تھی۔ اور ان ہی تین چار دن کے دوران پورے پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے مزید کئی واقعات ہائی لائٹ کیے گئے۔ دماغ تو جیسے ماؤف ہو گیا کہ کیا اس ملکِ پاکستان میں عورت کو ذرا بھی تحفظ نہیں۔ اور کیا اس قوم کے مرد وحشی بن چکے ہیں۔ جبکہ مرد تو تحفظ کا دوسرا نام ہے۔ اور جب محافظ ہی لٹیرے بن جائیں۔ تو گھر کی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ عائشہ اکرم کیس میں عوام کی دوہری رائے دیکھنے میں آئی۔ کسی نے عورت کے ساتھ ہوئی زیادتی پہ آواز اٹھائی۔ جس میں میں بھی شامل تھی۔ اور کسی نے عورت کو مکمل قصور وار ٹھہرا دیا۔

مگر اٹھارہ سے آج ستائیس اگست تک کیس جیسے جیسے کھل کر سامنے آتا گیا۔ بہت سے پردے منظرِ عام سے ہٹنے لگے۔ عائشہ اکرم کے خلاف اٹھنے والے سوالوں اور اُن کے جوابات کی تفصیل کچھ یوں ہے، کہا گیا کہ اول تو ہجوم میں خاتون گئی کیوں؟ اور وہ بھی بنا پردے۔۔۔۔۔ فینز کو باقاعدہ بلایا گیا۔ پھر وہاں جا کے فحاش اور نازیبا حرکات کی گئی۔ مگر ان تمام الزامات کا نتیجہ خاتون کی جنسی ہراسگی کی صورت میں اگر سامنے آئے تو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ کہ ان تمام اغلاط کی صورت میں عورت کو چار سو لوگ سرِ عام نوچ ڈالیں اور کپڑے پھاڑ دیں۔

اب اُس کے بعد کی داستان سنیے کیس دو دن کیوں فائل نہ کرایا گیا۔ اور کیس میں گھر کا پتہ غلط لکھوایا گیا، جواب آیا۔ خوفزدہ تھی۔ اس واقعے کو دنیا کے سامنے نہیں لانا چاہتی تھی۔ لاجک سمجھ آتی ہے کیونکہ ہم نے یہ صورتِحال موٹر وے کیس میں بھی دیکھی۔ کہ اُس خاتون نے بھی کیس فائل کرانے سے انکار کیا۔ پتہ غلط لکھوایا۔ یہاں تک کہ وہ خاتون تو انصاف مانگنے بھی منظر پر نہ آئی۔ کیونکہ ایک عزت دار عورت کے لیے عزت سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ عائشہ اکرم کیس میں بھی کچھ کا اندازہ یہ ہی تھا۔

اس کے بعد وقار ذکا سے ایک لاکھ روپیہ لینے کا معاملہ سامنے آیا۔ ریمبو کے ساتھ تعلقات کی نوعیت سامنے آئی۔ سستی شہرت کے ششکے، بےحیائی، مشہور ہونے کا جنون۔ ایسی خواہشات کی تکمیل کے لیے جو راستہ اپنایا گیا۔ وہ ہماری قوم اور معاشرے کو کسی طور قبول نہیں۔ اور اس راستے پہ چلنے والے کے لیے نہ کوئی ہمدردی نہ ہی کوئی حمایت۔

اگر عائشہ خود کو سٹار سمجھے اور فینز کو پارک آنے کی اطلاع دے۔ اور پھر وہاں جا کے خود کو ہالی وڈ کو سپرسٹار سمجھتے ہوئے فلائنگ کسز فینز کو بطورِ گفٹ نوازے۔ ریمبو کے ساتھ عشق فرمائے۔ تب بھی اس بےراہروی کی سزا کھلے عام عورت کو برہنہ کرنا ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔

مگر وہی عورت اس واقعے کی آڑ میں روپے اینٹھے۔ مگر میڈیا پہ آ کر انکار کرے۔ جبکہ روپے دینے والا اس کے ساتھ ہوئی گفتگو کا چٹا کھول دے۔ عورت کا اکاونٹ نمبر اور وائس نوٹ فراہم کر دے۔ پھر اس شہرت کی بھوکی پیاسی عورت کے متعلق اخلاقیات سے گرے معاملے سامنے آئیں تو کیا اس عورت کی حمایت میں بولنا، قلم کے ساتھ انصاف ہو گا؟ قلم کا خاموش ہو جانا اپنی جگہ پہ ایک طرح کا احتجاج ہے۔ اور دوسری طرف کیا اس جھوٹ کی ہمدردی کرتے ہوئے ہم اُس عورت کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے۔ جو بنا خطا کے مرد کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے اور پھر انصاف سے بھی محروم رہتی ہے۔ یہاں میں دوبارہ یہ فقرہ دہراوں گی کہ سرِ عام عورت کو برہنہ کرنے والا مرد بھی انسان کہلوانے کے قابل نہیں۔

Check Also

Lawrence Of Arabia

By Rauf Klasra