Meri Diary Se
میری ڈائری سے
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
کتب سیرت اقبال میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کو جب شمس العلماء کا لقب دیا جا رہا تھا تو علامہ اقبال نے وہ لقب لینے سے انکار کر دیا۔ جب اُن سے انکار کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا۔ میرے استاد محترم میر احسن کو بھی یہ خطاب دیا جائے۔ کہا گیا کہ انھوں نے کوئی ایسا نمایاں کام نہیں کیا۔ جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرے۔ اقبال نے فرمایا۔ تو میں نے پھر کیا کیا؟ جو مجھے یہ خطاب دیا جا رہا ہے۔ جواب ملا جناب آپ کے ذمے اردو اور فارسی کا بہترین کلام ہے۔ میر احسن نے کوئی تصنیف نہیں لکھی۔
اقبال نے کہا بے شک میر احسن کی کوئی تصنیف کتابی شکل میں موجود نہیں ہے مگر اُن کی تعلیمات و قابلیت کی عکاس تصنیف میں خود ہوں میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنے استادِ محترم کی کاوش و محنت کی وجہ سے ہوں۔ اُن کے علم نے مجھے ایک عظیم شاعر کا رتبہ بخشا اس لقب کے وہ مستحق ہیں۔ اقبال کے اصرار کی وجہ سے میر احسن کو شمس العلما کا لقب بخشا گیا۔ اور استاد کے احترام سے متعلق یہ واقعہ انگریزی کتب میں درج ہے اور اُن کے طلبا اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
مگر جب میں اپنے اردگرد نظر دوڑاتی ہوں۔ اپنے تعلیمی مدارس کا حال دیکھتی ہوں۔ تو انتہائی تکلیف ہوتی ہے۔ کہ ہمارہ معاشرہ جس نے میر احسن جیسا محنتی استاد پیدا کیا۔ جس نے مٹی کو تراش کر شاعرِ مشرق بنا دیا اور اقبال جیسا شاگرد بھی یہیں پروان چڑھا۔ جس نے عقیدت میں استاد محترم کے نام کے ساھ شمس العلما کا لقب جوڑ دیا۔ آج وہی معاشرہ کس راہ چل پڑا ہے۔ تدریس کا پیشہ فقط ایک کاروبار بن کر رہ گیا ہے اور استاد سے عقیدت و محبت کہیں گم ہو گئی ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
پھر حال بھی ہمارا یہ ہی ہوا۔ ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا۔ معاشرے کی ابتری اُس دن سے شروع ہو گئی۔ جب شعبہ تدریس سے شفقت و اخلاص نکل گیا اور اُس جگہ پیسہ کمانے کی حرص آگئی۔
اور آج جو ہم نوجوان نسل کا حال دیکھتے ہیں تو اُن کے اندر استاد کے لیے نہ تو محبت کا احساس ملتا ہے نہ عقیدت کا۔ استاد کا مذاق اڑانا انھیں تنگ کرنا، کھلے عام سڑکوں پہ استاد کو مارنے تک کے واقعات ہم دیکھ اور سن چکے ہیں۔ کلاسز میں بیٹھ کر استاد پہ آوازیں کسنا۔
استاد کا درجہ تو خدا نے والدین سے بھی بلند رکھا ہے۔ ایک وہ بھی دور تھا جب استاد کی جوتیاں اٹھانا شاگرد باعثِ فخر سمجھتے تھے ایک یہ بھی دور ہے جب استاد پہ انگلی اٹھانا لازم ہے اسی لیے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی۔