Maqsad e Hayat
مقصدِ حیات
بہت بار پڑھا ہے اور بچپن سے ہر کسی سے یہ سنتے بھی رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو بے مقصد اس دنیا میں نہیں بھیجا، بلکہ ہر کسی کے دنیا میں آنے کا ایک مقصد ہے۔
سچ ہوگا کیونکہ اکثریت اس بات پہ من و عن ایمان رکھتی ہے مگر میری سوچ کے دھاگے اکثر الجھ جاتے ہیں جب میں اپاہج بھکاری کو بھیک مانگتے دیکھتی ہوں جس کا بازو کٹا ہوتا ہے تو کسی کی ٹانگ۔
ایک بار جولائی کے مہینے میں کسی درگاہ پہ جانے کا اتفاق ہوا وہ درگاہ لاہور سے باہر ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھی۔ اس وقت وہاں عرس کا سماں تھا۔ بہت سارے لوگوں کا وہاں آنا جانا تھا، درگاہ کے داخلے والی سڑک پہ کئی بھکاری بیٹھے تھے ان میں کوئی بھی مکمل جسم نہ رکھتا تھا ایک دو کی حالت تو انتہائی رحم طلب تھی۔ ایک بیس بائیس سال کا لڑکا جس کی ٹانگیں مکمل ناکارہ تھیں وہ اس کے جسم کے ساتھ جڑی تو تھیں مگر ٹانگوں کا لٹکا ہوا گوشت ان کے بےجان ہونے کا پتہ دے رہے تھے۔
اسے بیچ سڑک میں بھیک مانگنے کے لیے اوندھے منہ پھینکا گیا۔ سڑک اس قدر گرم تھی کہ سڑک کی تپش کی وجہ سے وہ اپنے جسم کے اوپری حصے کو ادھر ادھر ہلا رہا تھا۔ اسکا دکھ ایسا درد ناک تھا کہ اس کی جانب دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہو رہی تھی۔ صاف ظاہر بھی تھا کہ وہ اپنے لیے تو مانگ نہیں رہا، بلکہ اس کی مجبوری کو کوئی اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور بھکاریوں میں یہ حالت عام ہے ایسے رحم طلب لوگ تو ہر درگاہ، دربار، زیارت گاہوں کے باہر پڑے ملتے ہیں۔
کیا ان کی دعاؤں میں اثر نہیں ہوتا یا پھر یہ دعا نہیں مانگتے؟ ایسی عبرتناک حالت کی وجہ سے شائد ان کے دماغ بھی ماؤف ہو چکے ہوں تو کیسے وہ اپنی سوچوں میں ڈوب کر اپنا مقصد حیات تلاش کریں؟ وہ تو جسمانی لحاظ سے اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ اگر کسی گروہ کے ہتھے چڑھ چکے ہیں تو وہاں سے بھاگ کر کسی محفوظ جگہ پہ جا کے اپنی حالت کو سنوار سکیں۔ ایسے لوگ تو بےتحاشا ہیں تو یہ کیا بنا مقصد ہی دنیا میں پھینک دئیے گئے کہ عبرتناک زندگی گزار کر ان لوگوں کو ایک دن مر جانا ہے۔
اپنے اردگرد نظر دوڑائیں کئی ایسے غربت کے مارے ملیں گے جنھیں دیکھ کر میں تو اپنا دنیا میں آنے کا مقصد بھی تلاش نہیں پاتی کہ میں کیوں دنیا میں آئی ہوں؟
کچھ روز پہلے ایک عمر رسیدہ عورت کو شدید سرد جنوری میں ریسٹورنٹ کے باہر غبارے بیچتے دیکھا۔ شدید سردی کے عالم میں گرم کپڑے پہنے مجھے گاڑی میں بیٹھے بھی سردی لگ رہی تھی مگر وہ کھلے آسمان تلے پرانا سا کوٹ پہنے تھی اور ہاتھ میں ڈھیر سارے غبارے اٹھا رکھے تھے شدید سردی میں غبارہ کوئی بھی خرید نہیں رہا مگر وہ پھر بھی اس کوشش میں تھی کہ کوئی اسے خرید لے۔
یہ عورت کیا عمر کے اس حصے میں آرام کی مستحق نہیں؟ اگر ہے تو کیوں اس بڑھاپے میں کام کرنے پہ مجبور ہے؟
بسا اوقات مجھے لگتا ہے کہ مقصد حیات صرف دولت والوں کا ہی ہوتا ہے غریب لوگ صرف اس لیے دنیا میں آتے ہیں کہ وہ محرومی میں بچپن گزاریں جوانی میں اپنے جیسے لوگوں میں شادی کرنے کے بعد ڈھیر سارے بچے پیدا کریں پھر ان بچوں کو بھی محرومی کی زندگی دیں اور یونہی ترس ترس کے باقی کی عمر گزار کر مر جائیں۔ ان لوگوں کا دنیا میں آنے کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ وہ ملک کی آبادی میں ٹھیک ٹھاک اضافہ کریں۔
نشے کو معاشرے میں عام کریں اور پھر کیڑے مکوڑوں کی طرح مر جائیں۔ یہ لوگ دماغی لحاظ سے اتنے پست ہوتے ہیں کہ ان کے ذہن کبھی اپنی حالت سدھارنے کی طرف جاتے ہی نہیں اور نہ ہی یہ اپنی حالت کو سدھارنے کی دعا تک مانگتے ہیں۔ اور بنا مانگے فرشتے بھی رزق اور دولت لے کر ان کے گھروں میں نہیں اترتے۔