Khat Banam Quaid e Azan Muhammad Ali Jinnah
خط بنام قائد اعظم محمد علی جناح
محترم قائد، السلام علیکم!
کئی روز سے من میں خواہش مچل رہی تھی کہ قومی احوال آپ کے گوش گوار کروں۔ مگر بخدا! لاکھ چاہنے کے باوجود بھی ہمت نہ ہو سکی۔ کاغذ قلم اٹھاتی، مگر باعثِ شرمندگی اور ندامت ایک لفظ بھی نہ لکھ پاتی۔
ملک کی نازک صورتحال تو آپ سے پوشیدہ نہیں ہے، آپ بخوبی واقف ہوں گے جو حالات اس وقت ملک پاکستان کو درپیش ہیں۔ قوم تقسیم ہو چکی ہے سیاستدان سڑکوں پہ ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں فوج اور عدالتیں بدنام ہو رہی ہیں معیشت کی کمزور کشتی کمیاب وسائل اور ذرائع کے سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہے بین الاقوامی اور اندرونی پریشانیاں اور مسائل ہماری جانب دوڑے چلے آ رہے ہیں مخالفین ہم پہ ہنس رہے ہیں۔ بلکہ تماش بین بنے تالیاں بھی بجا رہے ہیں۔
جس ملک کو آپ اور آپکے ہم عصروں نے خون جگر دے کر حاصل کیا جس کی عظمت کی خاطر بہنوں، بیٹیوں کی عصمتیں قربان ہو گئیں آباء نے دن اور رات کا فرق مٹا کر صرف محنت کو نصب العین بنا لیا، أس وقت کی دو بڑی طاقتور قوموں کے سامنے ڈٹ گئے اور اس عظیم ریاست کا حصول ممکن بنایا۔ آج یہ ہی ملک کیسا لاچار اور بےحال ہو رہا ہے۔ اقبال کا خواب ایک خوفناک تعبیر کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ آباء کی لگن و محنت کیسی ملیا میٹ ہو رہی ہے۔
اقتدار اور طاقت کا حصول ہی حکمرانوں کا مقصد حیات بن کر رہ گیا ہے انھیں نہ تو اس قیمتی سرزمین کی پرواہ ہے نہ ہی ملت کی کمزور بنیادوں کی۔ ہر کوئی دوسرے کی کردار کشی میں ایسا بدمست ہوا ہے کہ اسے اپنے دامن کے داغ تو نظر ہی نہیں آ رہے۔ عوام غربت، افلاس بےروزگاری، ناخواندگی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
اس سے پہلے بھی ہم اندورنی اور باہمی اختلاف کے باعث ایسے حادثے کا شکار ہوئے تھے جس کا خمیازہ ہم اپنے ہی وجود کا آدھا حصہ کٹوا کر بھگت چکے ہیں وہ دکھ اب بھی دل جلاتا ہے اور اس کے قصور وار سیاست دان، عدلیہ، فوج، اعلی ادارے اور ایجنسیاں ہی نہ تھیں بلکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں پوری قوم کی نااہلی شامل تھی۔
آج پھر مجھے اس ملک میں 1971 جیسی صورت حال نظر آ رہی ہے آج پھر ایک پاکستانی ہی دوسرے پاکستانی کے مدمقابل کھڑا ہے یہ جھگڑا نہ تو فرقوں کا ہے نہ ہی الگ مذاہب کا، بلکہ یہ جھگڑا سوچ اور روئیوں کا ہے آج ملک اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ ہم اپنے ہی قوم کی عورتوں کے محافظ بننے کی بجائے ان کی عزتوں کو تار تار کر رہے ہیں فوج اور پولیس اپنے ہی لوگوں کو بنا جرم پکڑ رہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے پوری ریاست کی مت ماری گئی ہے ہم ایک ایسا جہاز بن چکے ہیں جو تیزی سے نیچے گر رہا ہے لیکن کوئی پائلٹ اسے بچانے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ آپ جیسا لیڈر اب ہمارے پاس نہیں، نہ ہی کوئی سرسید موجود ہے نہ اقبال، نہ لیاقت علی خان اور نہ ہی مولانا محمد علی جوہر جیسے جوہر اب ہمارے پاس ہیں۔ پورے ملک میں ہوس و اقتدار کی آگ لگی ہوئی ہے ہم سب مدد کے لیے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ملک میں خوفناک آئینی بحران ہے لیکن کوئی ادارہ اس بحران سے نبٹنے کے لیے تیار نہیں، سب کو اپنی اپنی فکر ہے۔
محترم قائد ملک کی ایسی حالت پہ میرا دل جلتا ہے کڑھتا ہے کوئی نہیں، جو آگے بڑھ کر اس تقسیم شدہ قوم کو پھر سے یکجا کرے اور ملک میں امن بحال کرے۔ ایک ہی گھر کے افراد ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہیں یار دوست پسندیدہ لیڈروں کے لیے دیرینہ تعلقات بھول گئے ہیں۔
دفاعی محکموں کے اہلکار اپنے فرائض نبھاتے ہوئے ہلاک ہو رہے ہیں۔ ان کا کیا قصور؟ وہ تو برسرِ اقتدار حکومت کے ملازم ہیں جو حکم ملا انجام دینے نکل پڑے۔
کبھی کبھی تو ملک و قوم کی نازک صورتحال پہ رونے کو بھی من کرتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کیا سوچا تھا مگر کیا ہو رہا ہے؟
سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور عوام درمیان میں، اگر نقصان ہو گا تو ایک عام غریب آدمی کا ہو گا؟ اگر معیشت کی خرابی کا کہیں اثر ہو گا تو وہ غریب کا گھر ہوگا۔ ہمارے نوجوان کا مستقبل داؤ پہ لگا ہوا ہے۔
مگر بچانے والا کوئی نہیں۔ محترم جناح کیا ہمارا ملک اس خونریزی اور بدامنی کے سمندر سے نکل پائے گا؟ کیا ہمارے ملک میں پھر سے امن بحال ہو سکے گا؟ کیا ہمارے راہنما ذاتیات کو ترک کر کے ملک کی ترقی کے لیے کبھی قدم کو آگے بڑھائیں گے؟
محترم جناح! سچ ہے آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہیں، لیکن پوری قوم اگر آج پھر آپ کے اقوال اور خطابات کو مکمل توجہ سے سن اور سمجھ لے، اگر عوام ایک بار پھر اقبال کے اشعار پہ کان دھر لے، اگر قوم ایک بار پھر سرسید کی تعلیمی تحریک پہ غور کرے اور سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کر لے، اور اگر پوری قوم ایک بار پھر آبا کی قربانیوں کو یاد کر کے ان قربانیوں کے پیچھے چھپا مقصد جان لے، تو میرے پیارے قائد، مجھے نہ صرف امید بلکہ کامل یقین ہے کہ ہم اس معاشی اور سیاسی بحران سے نکل سکتے ہیں۔
دعا ہے اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور جنت الفردوس میں آپ کے درجات بلند کرے۔
دعاگو
ہانیہ ارمیا