Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hania Irmiya/
  4. Karwa Sach

Karwa Sach

کڑوا سچ

لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ کیا اپنی سہولت کے لیے؟ بالکل بعض اوقات جھوٹ اس لیے بولا جاتا ہے تاکہ پریشانی سے بچا جا سکے۔ بالفرض آپ کسی سے ملنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو اسے جھوٹ کہہ دینا کہ میں بازار سے لیٹ آؤں گا۔ یا صبح دیر سے دفتر پہنچنے پہ بائیک کو خراب قرار دے دینا، یا پھر ٹریفک جام ہونے کی شکایت کرنا۔ ایسی حالتوں میں ہم اپنی غلطی پہ خود کو سامنے والے کے غصے سے بچا رہے ہوتے ہیں۔

لیکن بسا اوقات ہم نہ چاہتے ہوئے بھی جھوٹ بولتے ہیں ہم کوشش تو کرتے ہیں سچ بولنے کی مگر سامنے والے کی فطرت اور مزاج کی تلخی کو جانتے ہوئے ہم سچ بول نہیں پاتے اور جھوٹ بولنے میں آسانی جانتے ہیں۔ جیسے کہ گھر دیر سے آنا، دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا، باہر کھانا کھانا، کسی سے ملنے چلے جانا۔ ایسی بہت ساری باتیں ہم گھر میں والدین کو، بڑے بھائی بہن کو، بیوی کو بتانا چاہتے ہیں مگر تعلق میں سچ بتانے سے خرابی پیدا ہونے کے خدشے سے ہم جھوٹ بول کر جھگڑے کو قابو کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی سچ کو عام لفظوں میں کہتے ہیں کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے جو آسانی سے ہضم نہیں ہوتا۔

کیوں؟ ہم سچ بولنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے، کیوں جھوٹ بولنا ہمیں آسان لگتا ہے یہ کیفیت کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہے۔

انسان کو اللہ ربّ العزت نے آزاد فطرت پہ پیدا کیا ہے مگر معاشرتی روایات اور گھریلو ماحول ہمیں بندش پہ مجبور کرتا ہے۔ ہم تعلقات میں جکڑے ہوئے لوگ ہیں، چاہ کر بھی اپنی من پسند زندگی نہیں گزار سکتے۔ اپنے مزاج اور خواہشات کو رشتوں پہ قربان کرنا ہماری تہذیب ہے ہم اپنے لیے جی نہیں سکتے۔ خود کو خوش کرنے لیے ہر وہ کام نہیں کر سکتے جس میں دوسروں کی خوشی شامل نہ ہو۔

ایسے ماحول میں کبھی کبھی جب ہم سامنے والے کی منشا سے ہٹ کر کام کرتے ہیں تو اس کو دل آزاری اور خود کو اسکے عتاب سے بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا اس سوچ کے تحت لیتے ہیں کہ "ربّ معاف کر دیتا ہے مگر بندے معاف نہیں کرتے۔ " اور وہ ربّ واقعی ہی معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ ہماری دلی کیفیت سے واقف ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ بےبسی میں بولے گئے جھوٹ کی نیت کیا تھی۔

لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے قریبی رشتوں کو زندگی جینے کا بھی موقع دیں انھیں ہم کیوں فقط سانسیں لینے پہ مجبور کرتے ہیں۔ کیا زندگی صرف اس دنیا میں آنا اور مقرر مدت کے بعد یہاں سے لوٹ جانے کا نام ہے۔ ہم سب نے اپنی اپنی عزت کو دوسروں کی ذات سے وابستہ کر رکھا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے اپنے آس پاس کے رشتوں کو جینے کا موقع دیں انھیں خود کی خوشی کے لیے جھوٹ پہ مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کی طنزیہ گفتگو یا مزاج کی تلخی کی وجہ سے گناہ میں گرتے جائیں کیا یہ بہتر ہے؟

Check Also

Tanawwu Mein Ittehad Aur Hum

By Qasim Asif Jami