Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Kamsini Ki Shadiyan

Kamsini Ki Shadiyan

کمسنی کی شادیاں

زندگی کی گہما گہمی ہمارے معاشرے کا حسن بڑی تیز رفتاری سے نوچتی ہوئی اسے بدصورت بناتی جا رہی ہے موبائل فون کا بنا ضرورت بہت زیادہ استعمال، اور نوجوان نسل کے بےراہروی کی جانب بڑھتے قدم، ایسی معاشرتی برائیاں پیدا کر رہے ہیں کہ جن کی روک تھام رہتے وقت میں اگر نہ کی گئی تو حالات زیادہ سنگین بھی ہو سکتے ہیں۔

آج سے بیس سال اگر ہم پیچھے جائیں تو ہمارے پاکستانی مشرقی معاشرے میں والدین کا رعب اس قدر تھا کہ بچے جائز ضد کرتے بھی خوف محسوس کرتے تھے۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے میں اپنی کلاس لینے کے بعد ایڈمن بلاک کی طرف جا رہی تھی مین کوریڈور میں مجھے فسٹ ائیر کی ایک اسٹوڈنٹ ادھیڑ عمر شخص کے ساتھ بےتکلفانہ گفتگو کرتے، اس کے بازو کو پکڑے اور عجیب بچگانہ توتلے لہجے میں اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہوئے ملی۔

میں نے پاس سے گزرتے ہوئے ان دونوں کو دوبارہ مڑ کر دیکھا عمر کے اعتبار سے دونوں والد اور بیٹی لگ رہے تھے مگر ایسا لاڈ، کہ بچی کے اطوار ہی بدلے ہوئے تھے اپنے والد کی غیر موجودگی میں، کلاس روم کے اندر، ٹیچرز کے سامنے اس لڑکی کا روئیہ قابلِ قبول ہوتا ہے مگر اسوقت کی وضاحت کے لیے میرے پاس الفاظ کی کمی ہے۔

کورڈینٹر کے پاس جب یہ دو دونوں پہنچے تو پتہ چلا یہ واقعی ان صاحب کی بیٹی ہے کورڈینٹر کے سامنے بھی وہ صاحب بچی کی تعلیم سے لاتعلقی کا خوب دفاع کر رہے تھے میں کچھ لمحوں کے لیے ایسے روئیے پہ حیران ہی رہ گئی بلکہ اپنا گزرا زمانہ یاد آگیا۔

والدہ کا بات بے بات ٹوکنا، یوں نہ بیٹھو، یوں چلو، قمیض درست کرو ٹھیک انداز میں بات کرو، بلا وجہ نہ ہنسو، گھر داری بھی کچھ سیکھو۔ اور ان باتوں پہ والد صاحب کا سنجیدہ روئیہ جو سمجھاتا تھا کہ مجھ سے اس معاملےمیں نرمی کی امید نہ رکھنا۔

ہمارے گھر میں تعلیم اور تربیت دونوں معاملات میں سختی برتی گئی بلا وجہ رات کا جاگنا معیوب سمجھا جاتا تھا اجنبیوں سے گفتگو کی اجازت نہ تھی، لیکن اب کا ماحول تو ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے کا ہے ہی نہیں۔

سکول جانے والے بچے، بچیوں کے لیے موبائل ایک درسی ضرورت بن چکا ہے بستے میں کتابیں ہوں یا نہ ہوں مگر فون ہونا لازم ہے گھر میں لیب ٹاپ، کمپیوٹر میں بڑھتی دلچسپی نے بزرگوں کی نصیحتوں اور پریوں، جنوں کی کہانیوں سے دور کر دیا ہے یہاں تک کہ چھے ماہ کا بچہ موبائل کی رنگین اسکرین سے اس قدر مانوس ہے کہ اس کے آنسو اسے دیکھتے ہی تھم جاتے ہیں موبائل کے بےجا استعمال نے نوجوانوں کی سوچ اور خیال کو بری طرح متاثر کیا ہے جنسی بےراہروی بڑھ رہی ہے نوعمر لڑکے، لڑکیاں مختلف سوشل ایپس پہ ایک دوسرے سے روابط بڑھاتے ہیں جن سے والدین یکسر لاعلم ہوتے ہیں یہاں تک کہ والدین کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ بچوں نے کس کس ایپ پہ کس نام سے اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں جس کا نتیجہ بعد میں یہ سامنے آتا ہے جو ماضی قریب میں پورے پاکستان نے دعا، نمرہ کے گھر سے بھاگ جانے کی صورت میں دیکھا۔

دونوں لڑکیاں بمشکل چودہ سال کی تھیں مگر حالات دیکھیے دونوں نے گھر سے بھاگ کر اپنے من پسند لڑکوں سے شادیاں کیں اور دونوں کے روابط سوشل میڈیا کے ذریعے مستحکم ہوئے مگر والدین کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ہوش تب آئی جب دونوں نے گھروں کو خیر آباد کہہ کر نکاح کر لیے یہ دونوں واقعات موجودہ وقت کے والدین کی بےتوجہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور بھی کئی ایسے معاملات ہیں جو پردے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں لوگوں کے سامنے نہیں آئے۔ مگر سچ یہ ہے کہ نوجوان نسل کی اکثریت بھٹک چکی ہے۔ جس کا سبب والدین کا غیر ذمے دارانہ روئیہ بھی ہے۔

مذہبی اعتبار سے اگر ان واقعات کا جائزہ لیں تو دین کے مطابق اگر لڑکا لڑکی بالغ ہیں تو نکاح ان کی پسند سے کرنے میں قباحت نہیں۔ دین کے مطابق لڑکا اور لڑکی کی بلوغت کی عمر وہ ہے جب دونوں بچپن کے دور سے نکل جائیں اور انکا جسم جنسی تعلق کی خواہش کو محسوس کرنے لگے۔

قیام پاکستان سے ایک صدی پیچھے تک دیکھیں تو لڑکا اور لڑکی کی شادی تیرہ چودہ سال کی عمر میں کر دی جاتی تھی اور اس وقت اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ والدین کے مطابق نوجوانوں کو بےراہروی سے بچانے کا یہ بہترین حل ہے مگر موجودہ دور کے تقاضے اور مطالبے دونوں بدل چکے ہیں اس دور میں والدین کی رضامندی کے بنا اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح قانونی جرم ہے۔

لڑکا لڑکی کے نکاح میں مرضی کی بھی وضاحت کر دوں اگر اٹھارہ سال یا اس سے زائد عمر کی لڑکی کا لڑکا گھر کو خیر آباد کہہ کر والدین کی رضامندی کے بغیر اگر نکاح کریں تو وہ قانوناً جرم نہیں مگر معاشرتی اور اخلاقی قیود اس کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی کسی بھی مذہب میں اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔

کم عمری کی شادی سے متعلق پاکستانی قانون میں کچھ دفعات شامل کی گئی ہیں کیونکہ موجودہ وقت میں کم عمری کی شادی نہ صرف 2 لوگوں کو الجھا کر رکھ دیتی ہے بلکہ آنے والی نسل کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے والدین اپنے بچوں کو جو طریقہ، سلیقہ جو تربیت دیتے ہیں بچے بھی اسی انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جب والدین کو ہی عقل نہ ہو وہی بالغ نہ ہوں تو وہ کیسے اپنے بچوں کی پرورش کر سکتے ہیں۔ ان کی صحت اور جسمانی مسائل ہی اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ دیگر معاملات میں کوئی غور و فکر نہیں کر پاتے۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق کئی رہنما اصول بنائے گئے ہیں۔ ہر صوبے میں قانون الگ ہے۔ اگر ہم سندھ کی بات کریں تو سندھ میں یہ قانون ہے کہ اگر 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی کروائی جائے گی تو والدین سرپرستوں اور معاونین کو 3 سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس کے ساتھ کمسنی کی شادی کو نہ صرف قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ ناقابل ضمانت اور ناقابل راضی نامہ بھی ہے۔ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکا شادی نہیں کر سکتے۔ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی خلاف ورزی کی سزا 2 سال اور 1 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔

پنجاب کے قانون کے مطابق کم عمری کی شادی پر والدین یا سرپرست یا 18 سال سے زیادہ عمر کے دلہا کو 6 ماہ قید یا 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

یہ سارے قوانین نو عمروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ وہ تمام والدین کو اپنی اولاد کی شادیاں باعزت طور پہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

Check Also

Siasat Yoon Hoti Hai

By Mubashir Ali Zaidi