Jhoot Ke Paon Nahi Hote
جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے
عمران خان کے حالیہ انٹرویو پہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں بےحد دلچسپ گفتگو جاری ہے کوئی ان کے بیانیے کا دفاع کر رہا ہے تو کہیں اس بیان پہ زور شور سے بحث ہو رہی ہے۔ اقتدار کی ہوس ایسی بیماری ہے یہ جسے لگ جائے اس کے لیے کرسی کے علاوہ باقی ہر شے بےمعنی ہو جاتی ہے۔ عمران نیازی سمیت پاکستان کے سبھی سیاسی راہنما اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ عمران نیازی پہ جب یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ اب سر پہ چھت گرنے والی ہے اور میں کسی وقت بھی راستے پہ آ جاؤں گا۔
انہوں نے اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دئیے کہ کس طرح میں اپنے اوپر اپنے مکان کی چھت کو گرنے سے بچا سکوں اس وقت وہ کہیں سے امریکی سفیر کا خط اٹھا لائے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی عوام عمران خان کی وزارت سے تنگ آ چکی تھی اور عمران خان کی جگہ انہیں پھر سے نون لیگ یا زرداری کوئی بھی منظور تھا۔ عوام ان جماعتوں کو خوشی سے قبول کرنے کو تیار تھی مگر عمران خان نے ہوا میں محل بنانے کی بجائے ہوا میں خط لہرا دیا کیونکہ ایک پاکستانی عام آدمی کی دکھتی رگ سے وہ بخوبی واقف تھے۔
وہ جانتے تھے کہ عوام سے روٹی چھین کر اگر انہیں یہ کہا جائے کہ آٹے کے پیسے بچا کر امریکہ کو تباہ کرنے کے لیے ہتھیار بنائے جا رہے ہیں وہ یہ عوام فاقے کاٹ کے مرنے کو بھی تیار ہو جائے گی صرف اس خوشی میں کہ ہم باطل کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے علما نے عوام کی ذہنی حالت ایسی کر دی ہے کہ جو مغرب کے خلاف بات کرتا ہے وہ ہمیں اپنا لگتا ہے اس حقیقت سے قطع نظر کہ ہر بار ہماری معیشت کو سہارا دینے والے مغربی ہی ہوتے ہیں ورنہ ہمارے اپنے ملک کے حکمران تو کب کے اس ملک کو بیچ کر اپنی تجوریاں بھر چکے ہوتے۔
اپنے تختے کو بچائے رکھنے کے لیے عمران نیازی نے سائفر کا سہارا لیا اور عوام کے دل میں وہ نفرت کی آگ بھڑکائی کہ وہ جہاں پی ڈی ایم اور خاص طور پہ نون لیگ کے راہنماؤں کو دیکھتی، چاہے سڑک ہو یا مسجد کا صحن، جگہ کی اہمیت کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے چور چور کے نعرے گونجنے لگتے۔ امریکہ بیانیہ نے خوب ترقی کی، عمران خان نے ہر جلسے میں اس کارڈ کو شو کیا اور اپنے دکھ کی ایسی تشہیر کی کہ جلسوں میں موجود عورتیں اپنے خاندانی دکھ بھول عمران خان کے لیے روتی ہوئی نظر آئیں کہ اس نیک انسان پہ ظلم کیوں کیا گیا۔
عمران خان نے مغربی سامراج کے سہولت کاروں کو میر جعفر اور میر صادق کا نام دیا جو کہ بقول ان کے نواز شریف اور شہباز شریف کو وہ کہتے تھے جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دونوں اشخاص (میر جعفر، میر صادق) فوجی سپہ سالار تھے اور ان دونوں نے حکمران وقت کے خلاف غداری کی تھی جہاں تک میرا علم مجھے بتاتا ہے نواز شریف اور شہباز شریف کا سپہ سالاری سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔
تین چار ماہ گزرنے کے بعد امریکہ دشمنی ماند پڑنے لگی اور مسٹر "ایس وائے زی" کے خلاف بیان بازی نے زور پکڑا۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ عمران خان پس پردہ امریکن وزرا سے ملاقاتیں کرنے لگے تاکہ امریکہ کو رام کیا جا سکے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ صرف سیاسی داؤ پیچ ہیں۔ پھر بیانیہ مزید تبدیل ہوا۔ نومبر میں رجیم چینج کی ساری ذمے داری جنرل باجوہ پہ آ گئی اور اب عمران خان نیازی برملا کہہ چکے ہیں کہ میری حکومت گرانے کے پیچھے صرف اور صرف جنرل باجوہ کا دماغ تھا۔
امریکہ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں، بلکہ امریکہ کو سہولت کار کے طور پہ استعمال کیا گیا۔ یعنی اب موجودہ وقت میں بیانیہ مکمل تبدیل ہو چکا ہے عمران خان کے بیانات کے بدلتے رنگوں پہ یہ مثل پوری اترتی ہے کہ "جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے" یہ جہاں مرضی اڑ کے چلا جاتا ہے اور نشان نہیں چھوڑتا یا شائد اقتدار کے چلے جانے کا دکھ سابقہ وزیراعظم کے دماغ پہ اس قدر سوار ہے کہ وہ اپنے وقت کے تمام اختیار والے لوگوں کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔ شیخ مصحفی کے اس شعر کے مطابق۔
نازک مزاج تھا میں بہت اس چمن کے بیچ
جب تک رہا خندہ گل سے حزیں رہا۔
جس طرح شاعر کو کھلا ہوا گل اپنا تمسخر اڑاتا ہوا محسوس ہوتا ہے اسی طرح سابقہ وزیراعظم کے جو بھی مخالف ہیں وہ سب ہی رجیم چینج کے ذمے دار ہیں۔ خیر بیانیہ اب مکمل بدل چکا ہے لیکن کیا ان کے سپورٹرز کی محبت بیانیے کے ساتھ بدلے گی یا پہلے جیسی ہی رہے گی؟ اس کا واضح جواب 2023 کے الیکشن میں ملے گا۔