Jamhuriya Pakistan
جمہوریہ پاکستان
عید سے دو دن قبل دل نے چاہا کہ اب بس۔۔ ملکی سیاست نے تقریباً پورا ماہ دماغ کو ایک لاوے کی طرح پکایا ہے اس پہ گفتگو سے اب گریز کیا جائے مگر اسی پل پنجاب کی موجودہ صورتحال ذہن میں آگئی۔ اور قلم کی نوک پھر سیاسی تبصرے کی جانب مڑ گئی۔
تین اپریل یکم رمضان سے ملک میں ایک افراتفری کا عالم ہے نہایت افسوس سے خود کو الحمد للّٰہ مسلمان کہنے والے سیاست دان تو اس خوف سے بھی مبرا ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی گندی سیاست کی دکان کن دنوں میں چمکا رہے ہیں کسی ایک دن بھی ان لوگوں کو خیال نہ آیا کہ کسی طرح سکون سے بیٹھ جاتے۔
بےشک یوتھ جماعت والے اور ان کی مخالفت کرنے والے دونوں اندرونی ملکی خلفشار کے ذمےدار ہیں مگر یہ سچ ہے ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے میں پی ٹی آئی کا بہت بڑا ہاتھ ہے.
اقتدار خداداد نعمت ہے اگر خدا نہ چاہے تو بندے کی جرات نہیں کہ وہ کسی سے اقتدار چھین سکے۔ کسی انسان کے پاس اتنا اختیار نہیں کہ وہ سانس اپنی مرضی سے لے سکے یہ تو کسی کی کرسی زبردستی چھین لینے کی سازش تھی اور اقتدار کا ملنا یا چھن جانا شعبہ سیاست کا ایک حصہ ہے اسے انا کا مسئلہ بنا لینا کہاں کی دانش مندی ہے پھر عمران سپورٹرز کو اعتراض ہوتا ہے ہانیہ ارمیا نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ عمران خان نے اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ کھیل کے میدانوں میں گزارا ہے اور کھلاڑی میں جیت کے ساتھ ساتھ فراخ دلی سے ہار تسلیم کرنے کا مادہ اگر نہ ہو تو وہ شفاف کھیل کھیل ہی نہیں سکتا، مگر عمران خان نے اقتدار چھن جانے پہ گذشتہ دنوں میں جو حرکات کی ہیں وہ ایک تعلیم یافتہ شخص کو کسی صورت زیب نہیں دیتی۔
عوام نے گزشتہ انتخابات میں عمران حکومت سے یہ امید لگائی تھی کہ شائد ملک میں اب بہتری آئے گی جدیدیت کا راج ہو گا ہم بھی اقوام عالم سے نظر سے نظر ملا کر کہہ سکیں گے کہ دیکھو اب پاکستان کا جمہوری مقام۔۔
مگر اقتدار ملتے ہی ان کا صرف ایک ہی شوق رہا اپوزیشن کا خاتمہ ان پہ کرپشن پہ کرپشن کو ثابت کرتے رہنا انھیں چور اور غدار کہنا وہ بس کرپشن کو ہی ہر جگہ ڈسکس کرتے نظر آئے پنجاب جیسا بڑا صوبہ انھوں نے عثمان بزدار جیسے راہنما کو سونپ دیا جس نے سوائے آرام کے اور کوئی کام ہی نہیں کیا۔
اگر وہ اپنی انرجی عوام کے فلاحی کاموں میں صرف کرتے تو میں یہ بات اس سے پہلے بھی کالم میں کہہ چکی ہوں اگر عمران خان عوام کی فلاح کے لیے آگے بڑھے ہوتے تو آج انھیں عوام کو دھرنوں کی کال نہ دینی پڑتی، عوام ان کی تبدیلی سے پہلے ہی سٹرکوں پہ نکل آتے۔
عوام ایک ایسی طاقت ہے کہ اس کے سامنے ایک امریکہ تو دس امریکن ریاستوں کی طاقت بھی کچھ نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد تحریک پیش کی گئی تھی تو وہ اس پہ مقررہ وقت پہ ووٹنگ کرواتے اور شفاف اور کھلے دل سے اپوزیشن کو ہاتھ ملا کر وزرات عظمیٰ سونپ دیتے اور اس کے بعد بجائے جلسے جلوس اور دھمکیوں کے عوام کی فلاح کے لیے کام کرتے مگر وہ تو عدم اعتماد تحریک سے بہت پہلے یہ اعلانات کرتے نظر آئے کہ اگر مجھے اتارا گیا تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔
میرا سوال یہاں عمران سمیت ملک کے تمام سیاستدانوں سے ہے کہ کیا قوم کی فلاح اور بہتری کے اقدامات صرف حکومت میں ہی رہ کر ہو سکتے ہیں؟ کیا جلسوں میں خطاب ہی اس کا حل ہے؟ کیا عوام کو اکٹھا کر کے ہی اکثریت ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا صرف خالی خولی باتوں اور منصوبوں سے عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوسکتا ہے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایوانوں میں یا سیاستدانوں کے اجلاسوں میں کبھی نہیں دیکھا یا سنا گیا کہ تعلیم کا معیار بڑھانے کے منصوبے پیش کیے گئے ہوں۔ بےروزگاری کے خاتمے کے لیے تجاویز کو زیر غور لایا گیا ہو۔ مہنگائی، غربت، منشیات، دہشتگردی، جنسی ہراس یہ سارے مسائل بھی تو قوم کے ہی ہیں مگر سوائے کرپشن کے کسی مسئلے پہ بات کرنا سیاسی گناہ ہے۔
موجودہ اپوزیشن اور حکومت یہ دونوں حلقے جتنا سرمایہ جلسوں پہ لگا رہے ہیں اگر یہ ہی سرمایہ کسی اور منصوبے میں نہ سہی صرف ملک کی سڑکوں کی حالت درست کرنے میں لگا دیں تو کسی طور تو ملک کا بھلا ہو سکتا ہے۔
جمہوری ممالک میں اقتدار ایک فرد سے دوسرے فرد تک قانون کے تحت اور پُرامن انداز میں منتقل نہ ہونا کیا جمہوری قدروں کی توہین ہے اگر ہے تو ہمیں اپنے ملک کے نام سے جمہوری ریاست کا ٹیگ ہٹا دینا چاہیے۔