Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Jamhoor

Jamhoor

جمہور

قیام کے بعد پاکستان کے تین دساتیر تشکیل پائے۔ تینوں میں ملک کے نام کی مکمل تشریح "اسلامی جمہوریہ پاکستان" درج کی گئی، یعنی وہ ملک جس کا قانون اسلام کے اصولوں پہ مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ مگر قیام پاکستان کا یہ 76واں سال شروع ہے نہ تو ملکی قانون میں اسلامی اصول نظر آتے ہیں نہ ہی عوام کی فلاح کے اقدامات۔ اگر ملکی ہلچل پہ طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو صرف امراء کی تقاریب اور سیاست دانوں کے جھگڑے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یہاں تو ہر طرف انٹرٹینمنٹ میڈیا کے افق پہ چمکنے والے ستاروں کی بہار یا خواتین کے ادھ جسم کو ڈھانپے کپڑوں کی نمائش ملتی ہے۔ ان کی طلاقوں پہ چھڑی بحث، کون غلط، کون صحیح کے جھگڑے، اولاد کی تقسیم، افئیرز، شادیوں کی رنگین محفلیں، اور شادی کے بعد ان ستاروں کی فارغ البال زندگی کی خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنی رہتی ہیں اور اس تمام رنگا رنگی سے خوشی ایک اس عام بندے کو ملتی ہے جس کے گھر میں مہنگائی، روٹی اور سبزی کی تعداد دن بدن کم کر رہی ہے اور اس کے بچے خود تو نئے کپڑے پہننے سے محروم ہیں مگر وہ اپنے من پسند ستاروں کی چکا چوند سے ہی بھوکی پیاسی آنکھوں کو تسکین دے لیتے ہیں۔

یا پھر دوسری طرف نیوز میڈیا جنونی حد تک سیاست دانوں کے معاملات میں مصروف ہے۔ مریم نواز اس وقت لندن کے کس ہوٹل میں کھانا کھا رہی ہے؟ نواز شریف کا میڈیکل چیک اپ کیسا چل رہا ہے؟ نون لیگ کا کون کونسا نمائندہ کرپٹ ہے؟ زرداری کس وقت کس سیاست دان سے مل رہا ہے اور کونسی چالیں چل رہا ہے؟ پی ڈی ایم کا کون سا رکن زیادہ سرگرمی سے سیاست کر رہا ہے؟ اور اب اس ساری سیاسی بحث میں مزید اضافہ گزشتہ سال کے بحران نے کر دیا ہے۔

ملک کے مقبول لیڈر عمران خان کس وقت ملک کے دورے پہ ہیں؟ کس وقت وہ بنی گالا بیٹھے ہوئے ہیں؟ کب عمران خان جلسے کر رہا ہے؟ جلسے پہ جانے سے پہلے عمران خان کی کیا مصروفیات ہیں؟ ان کی بیگم بشریٰ بی بی گھریلو مصروفیات کے ساتھ ساتھ شوہر کی کس طرح مدد کر رہی ہے؟ پھر اس مدد کے بعد ان کی گفتگو کی مبینہ آڈیوز کے چرچے میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں۔ کبھی عمران خان کی تین بیویوں کی زندگی و لندن میں مقیم بچوں کا ذکر۔

اور اب ایک بار پھر ان کی بیٹی کا مقدمہ زیرِ غور ہے وہ بیٹی جو ابھی تک عمران خان کی سرپرستی سے محروم ہے۔ اس سارے بحث مباحثے میں ایک عام شہری کہاں ہے؟ اس ملک کے مستقبل کی فکر کس کو ہے؟ مہنگائی کی چکی میں پس رہا تنخواہ دار طبقہ جو تیس دن کولھو کے بیل کی طرح پستا ہے اس کے بعد مٹھی بھر پیسے گھر لے کر آتا ہے اور آتے ہی وہ پیسے بجلی اور گیس کے بل کی نظر ہو جاتے ہیں اس کے بعد انگریزی زبان کے غلام تعلیمی اداروں میں بچوں کی فیس ادا کر دی جاتی ہے۔

اگر گھر کرائے کا ہو تو مالک مکان کو کرایہ ادا کرنے، پرچون کے سامان کی ادائیگی کے بعد بمشکل پانچ ہزار ہی بچتے ہیں اور ان بقایا بچے روپوں میں مہینے کے اگلے دن گزارنے کا طریقہ کاش کوئی ان جگمگ ستاروں سے پوچھے، جن کی رونق ایک عام شہری کی ترستی آنکھیں ہی بڑھاتی ہیں اگر غریب کی آنکھیں ان ستاروں کو دیکھنا چھوڑ دیں تو جگمگ کرتے یہ ستارے مٹی کے ذروں سے بھی بدتر ہو جائیں مگر ان ستاروں کی روشنی کسی عام آدمی کے گھر میں کبھی اجالا نہیں کرتی۔

تو بقایا بچے پانچ ہزار میں پورا مہینہ کیسے گُزرے گا؟ کاش سیاست دانوں کی دیوانی میڈیا انڈسٹری ایک بار کسی مباحثے میں مختلف جماعتوں کے سیاستدانوں کو بلا کر پوچھ لے کہ جس عام آدمی کا حق چوری کر کے یہ تمام چور محل سجا کے بیٹھے ہیں ان کے گھر کا ٹھنڈا چولہا بنا پیسوں کے کیسے جلے گا؟ لیکن اگر نیوز چینلز والے اس سوال کو پوچھنے کی جسارت کر بھی لیں تو مجھے یقین ہے کسی کرپٹ بیورو کریٹ یا چور سیاست دان کے پاس اس کا جواب نہیں ہوگا۔

کیونکہ اگر یہ لوگ ایک عام آدمی کی حالت کے سدھارنے کے لیے کوشش کرنا شروع کر دیں تو ان کے اپنے گھر کے چولہے اس آب و تاب کے ساتھ نہیں دہکیں گے جیسی آگ عام آدمی کے خون پسینے کے روپے چوری کر کے ملتی ہے تو اس کا پھر ایک حل تو یہ ہے کہ دستور کی دفعات میں سے ملک کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا جھوٹا ٹیگ ہٹا دینا چاہیے کم از کم ملک کا نام تو ایک عام کو دھوکا نہ دے کہ یہ ملک اسلام کے قانون پہ مبنی جمہور کی فلاح کے لیے کام کر رہا ہے۔

Check Also

Lawrence Of Arabia

By Rauf Klasra