Imran Khan Giraftari Se Nahi Darta
عمران خان گرفتاری سے نہیں ڈرتا
گزشتہ سال سے لاہور ایک ایسا شہر بن چکا ہے جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی سیاسی کھیل تماشا چلتا رہتا ہے۔ لاہور کا عام شہری تو گویا اب اس کا عادی ہو چکا ہے۔ گزشتہ اتوار دوپہر بارہ بجے کے قریب لاہور میں پھر ایک نیا تماشا شروع ہوا، اسلام آباد پولیس زمان پارک میں آموجود ہوئی تاکہ عمران خان کو گرفتار کر سکے، مگر وارنٹ دیکھنے کے بعد شبلی فراز کا کہنا تھا کہ "عمران خان صاحب زمان پارک میں موجود نہیں"۔ جبکہ ذرائع کا کہنا تھا کہ عمران خان گھر میں ہی موجود تھے کیونکہ کل شام جیل بھرو تحریک میں پھنسے پی ٹی آئی ورکرز جیل سے واپس آئے۔ ان ورکرز کے لیے استقبالیہ کا انتظام کیا گیا تھا جو زمان پارک میں ہی ہونا مقصود تھا اور اس کی تیاریاں جاری تھیں۔
زمان پارک کے باہر کارکنان پولیس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کے ڈٹ گئے امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر اسلام آباد پولیس واپس چلی گئی لیکن مصدقہ خبر ہے کہ کسی وقت بھی عمران خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے کیونکہ ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس ابھی لاہور میں ہی ہے اور کسی بھی وقت حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کا خطاب جو پانچ بجے ہونا تھا اس کی بجائے پی ٹی آئی قیادت کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جا چکا ہے جو کچھ دیر تک شروع ہونے والا ہے جس کا مطلب ہے کہ عمران خان زمان پارک میں ہی موجود ہیں۔
"عمران خان گرفتاری سے نہیں ڈرتا۔ " پی ٹی آئی جماعت کے ہر ورکر کا اس بات پہ ایمان ہے مگر اس کے باوجود انہیں اپنے پارٹی لیڈر کو بازوؤں کے حصار میں چھپانا پڑتا ہے۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ ملک کی اندرونی تمام طاقتوں سے ٹکرانے والا، مغربی سامراج کو جوتے کی نوک پہ رکھنے والا تحریک انصاف ورکرز کا دلیر لیڈر گرفتاری سے ڈرتا ہے، بھونڈا مذاق لگتا ہے مگر یہ سچ ہے وہ کہتے ہیں ناں"ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ "
عمران خان کے سیاسی بیانات اور حقیقت میں بھی یہ ہی فرق ہے وہ جو جیل بھرو تحریک چلانے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ تحریک شروع کر دینے کے بعد "قبل از گرفتاری ضمانت" پہ تھا اور اس کی دیگر پارٹی قیادت گرفتاریاں دے رہی تھی اور جب ان پارٹی ورکرز کو اندازہ ہوا کہ یہ جیل بھرو تحریک تو گلے میں آ پھنسی ہے تو دوسرے ہی دن سب نے ہاتھ کھڑے کر دئیے حالانکہ "عمران خان گرفتاری سے نہیں ڈرتا"، یہ گزشتہ اور رواں سال کا سب سے بڑا جھوٹ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو شبلی فراز کو جھوٹ نہ کہنا پڑتا کہ سابقہ وزیراعظم گھر میں موجود نہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ عمران خان گہرے بھنور میں پھنس چکا ہے، وہ مدد کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور اس کی نظریں اس ادارے کی طرف ہیں جن کا دست شفقت اب اسکے سر سے اٹھ چکا ہے اور ان کی مدد اور توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ نت نئے بیانات دیتا ہے تاکہ وہ سنیں اور عمران خان سے کسی طور رابطہ کریں مگر ایسا ہو نہیں پا رہا۔
دو دن پہلے بھی عمران خان انا کے پہاڑ سے نیچے اتر کر زمین پہ آئے اور بیان دیا کہ "میں ملک کی ترقی کی خاطر مخالفین سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہوں اور انہیں معاف کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اقتدار سے بےدخل کیا۔ مگر دوسری جانب سے جب خاطر خواہ جواب نہ ملا تو عمران خان نے پھر پنطرہ بدلا اور اسی ادارے کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ ادارے نے بھی اپنا رسوخ اس طرح دکھایا کہ اسلام آباد پولیس زمان پارک پہنچ گئی۔
وفاقی حکومت یہ حقیقت بخوبی جانتی ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرنا آسان نہیں، اس کے باوجود وہ پولیس بجھوا کر اسے یہ باور کروا دیتے ہیں کی کسی گمان میں نہ رہنا آسمان اگر سر پہ کھڑا ہے تو انسان محفوظ ہے اگر یہ ہی سر پہ آ گرے تو انسان کو کہیں پناہ گاہ نہیں ملتی۔
2014 کے دھرنوں اور 2022/23 کی احتجاجی مہمات میں فرق تو واضح ہے تب کا عمران خان اپنے مطالبات منوا کے ہی اٹھتا تھا اور آج کا عمران خان جو بھی تحریک شروع کرتا ہے وہ پلٹ کر عمران خان کے منہ پہ ہی طمانچہ مارتی ہے اس سے یہ سچ واضح ہے کہ تب کوئی طاقت تھی جو سابقہ وزیراعظم کو فاتح بناتی تھی اور وہ اس طاقت سے محروم ہیں۔
یہ سچ بھی عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ بے شک وہ جھوٹے بیانات کی بنیاد پہ مقبول ہو چکے ہیں مگر مقبول ہونا طاقت ور ہونے کی علامت نہیں۔ اگر کبھی وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو وہاں سے خیر کی امید لگانا بیوقوفی ہے اسی لیے وہ ایسا رسک نہیں لے سکتے کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جا گھسیں یعنی گرفتاری دے دیں کیونکہ اس وقت عمران خان کی گرفتاری کا مطلب عمران خان کی مکمل ہار ہے۔