Hum Zinda Qaum Hain
ہم زندہ قوم ہیں
پاکستانی قوم ایک بار پھر، گذشتہ تین چار روز سے خوب الرٹ ہیں سانحہ مری پہ ہر جانب سے آوازیں اٹھ رہی ہیں متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کی جا رہی ہے ان کے لیے دعاؤں کے نذرانے بجھوائے جا رہے ہیں۔
ڈیجٹل، پرنٹ اور سوشل میڈیا بھرپور جملوں، سوالوں، طعنوں کے ہتھیار سے لیس ہیں جس کا جسے، دل چاہ رہا ہے اسے مورد ِالزام ٹھہرا رہا ہے سوشل میڈیا پہ تو وہ بھی دانشور بنا ہوا ہے جو بارھویں فیل اور روزگار سے محروم ہے اور وہ بھی جن کا ملکی ترقی میں فقط اتنا حصہ ہے کہ گھر بیٹھے موبائل پکڑے ہر واقعے پہ تبصرے کرنے ہیں اور اپنے ناپسندیدہ سسٹم اور شخص کو الزام دینا ہے اس دائرے میں اب حکومت آئے، اپوزیشن، مذہبی جماعتیں یا لبرل طبقہ، بس ہر اپ ڈیٹ پہ تبصرہ لازم ہے، سانحہ مری میں پہلے حکومت قصور وار تھی اب مری کی عوام اور تاجر طبقہ، کل کوئی اور ہو گا۔
دراصل ہم زندہ قوم کے افراد ہر نئے دن پہ منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی سانحہ گزرے تو اپنی عقل ودانش کا پرزور مظاہرہ کریں۔ ورنہ ہم کمبل تانے سوئے رہتے ہیں یا موج مستی میں مگن رہتے ہیں جہاں کہیں سے خبر آئی ملک کے فلاں حصے میں حادثہ پیش آ گیا ہے لوگ جان کی بازی ہار گئے ہیں وہیں برسوں سے کھائے باداموں کی تاثیر ہماری سوچوں میں اتر آتی ہے۔
آزاد جمہوری ملک کی زندہ قوم، کیا اس سے پہلے مری کے حالات سے واقف نہیں تھی؟ کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ مصروف دنوں اور شدید موسم میں یہاں کے لوگ اور تاجر طبقہ، سیاحوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ اس موسم میں ہوٹلوں کے کمروں کے ریٹ کیا ہوتے ہیں؟ اس علاقے کے لوگوں کا روئیہ سیاحوں کے ساتھ کیسا ہوتا تھا؟ راستوں کی صورت حال کس حد تک خراب ہو سکتی ہے؟ اور ہمارے ملک کی قابل اور جوشیلی حکومت کا ماضی میں قوم کے ساتھ سلوک کیسا رہا ہے؟ عوام کی بہتری کے لیے ساڑھے تین سالوں اور اس سے پہلے کیسی پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں؟ اور آئندہ مزید کیسی حکومتی قابلیت دیکھنے کو ملی گی؟
اس کے باوجود قوم کو ہوش تب ہی آئی جب 08 جنوری 2022 کی صبح، آنکھ کھلتے ہی ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد سمیت مزید تین لوگوں کی لاشیں دیکھنے کو ملیں تب پورا ملک یکدم خواب ِغفلت سے جاگ اٹھا تب ہر سو، علاقہ مری سے متعلق انتظامیہ کی نااہلی نظر آئی حکومت کی ناقص کارکردگی سبھی کھلی آنکھ سے دیکھنے لگے اب سب کو مری کی تاجر برادری کی منافقت یاد آئی مری کے لوگوں کی زیادتیاں اور بددیانتی کے قصے سبھی دہرانے لگے اس سے پہلے اگر مری کی انتظامیہ، تاجر برادری، علاقائی لوگوں کے روئیے سے متعلق آگاہی تھی تو کیوں پہلے اس پہ نظر ثانی نہ کی گئی؟ کیوں اس پہ آواز نہ اٹھائی گئی؟ کیوں وہاں کے حالات نہ سدھارے گئے؟ حالانکہ حکومت واقف تھی کہ مری نہ صرف پاکستانیوں کے لیے بلکہ غیر ملکیوں کے لیے بھی مرکزِ توجہ ہے کیوں وہاں کی بددیانتی کو اس سے پہلے روکنے کی کوشش نہ کی گئی؟ موسم سے متعلق پیشن گوئیاں ہر ویب سائٹ اور خبرنامے پہ گزشتہ سال ماہ دسمبر سے کی جارہی ہیں مگر قول ہے ناں کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
تو غلطی کسی ایک جگہ پہ نہیں، اول سے آخر تک پورا معاملہ ہی غلط ہے اور اگر ہم یہ امید لگاتے ہیں کہ ہم زندہ پاکستانی کسی کو مشکل میں دیکھ کر ذاتیات بھول کر جذبہ خدمت خلق کے تحت دوڑ کر آگے بڑھیں گے تو یہ مذاق اچھا ہے ایسی امیدیں ہماری عرصہ دراز سے ٹوٹتی آ رہی ہیں اور ہم بےوقوفوں کی طرح ہر بار پھر اس امیدوں کے جھانسے میں آ کر سوشل میڈیا پہ عقل و دانش کے سمندر بہا دیتے ہیں اقبال کے اس مصرعے سے متاثر ہو کر
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
بس ایسی امیدِ بہار ہم سبھی اس ملک ِپاکستان کے زندہ پاکستانیوں سے بھی لگائے بیٹھے ہیں، ویسے اقبال کا فلسفہ خودی اس سلسلے میں بھی قصور وار ہے ملک کے قومی شاعر نے قوم میں کیا جذبہِ خودی جگایا۔ خود سے آگاہی، خود کی پہچان اور اس قوم نے اس فلسفہ خودی کو کیا خوب انداز میں فلسفہ خود پرستی میں بدل دیا بس اپنی سوچ اور اپنا خیال۔
اگر اقبال کے فلسفہ خودی کی گہرائی یہ قوم جان لیتی تو ہو سکتا ہے حالات اس سے مختلف ہوتے۔ (یہ خیال بھی امید کی ایک قسم ہے)۔