Hum Aah Bhi Karte Hain To
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
پاکستانی عوام کی حالتِ زار کی ترجمانی کرتا ہوا یہ شعر موجودہ مسائل کیا خوبی سے بیان کر رہا ہے۔ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کے بارے میں تو اس وقت بات ہی نہ کریں تو بہتر ہے پنجابی کی ایک کہاوت ہے جسے اردو میں ترجمہ کر کے بیان کروں گی۔
"کپڑا اٹھاؤ تو پیٹ اپنا ہی ننگا ہوتا ہے"
بین الاقوامی حلقوں میں پاکستان کی ساکھ بالکل اسی کہاوت کے مترادف ہے کہ اگر ہم خود اس پہ بات کریں تو تذلیل کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم مانندِ بھکاری کشکول لیے گھوم رہے ہیں۔ اور وہ ملک جو ہمارے بعد خود مختار ممالک بنے، ان کی معیشت ہم سے بہتر ہے۔
ملک کا سیاسی بحران میرے نزدیک بےمعنی مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ ملک کے معروف سیاستدانوں کی اپنی اختراع ہے کرسی کی ہوس اور اقتدار کے حصول کی خاطر ملک کو سیاسی طور پہ کمزور کرنے والے سیاستدان اگر خود کو محب الوطن کہیں، تو یہ قیامت کی نشانیاں ہیں کہ جھوٹ سرِ عام بولا جا رہا ہے۔ ہاں! مگر اس سیاسی بحران کی پیداوار معاشی بدحالی ضرور ہے۔ جس نے ایک عام اور بےبس پاکستانی کی کمر توڑ دی ہے۔ آٹے، دال، چاول، گھی کی قمیتوں کا تو پوچھیں ہی مت، لوگ مجبور ہیں، روٹی نہ ملے تو مر جائیں گے۔
اسلیے جس قیمت پہ بھی ملتی ہے خرید لیتے ہیں۔ پیڑول کی بڑھتی قیمتیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے، ایک عام شہری کہاں جائے؟ چینی اور دودھ کی بڑھتی قیمتوں نے چائے پینے والوں کے دماغ سے نشہ اتار دیا ہے، اب وہ چار کپ کی بجائے ایک کپ صبر شکر کرکے پی لیتے ہیں۔ صد شکر کہ ابھی تک پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے فیسوں میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا، جس کے باعث بچوں کو سکول چھڑوا کے گھر بٹھا لیا جائے۔ ایک بار کسی ادارے سے نوکری چھوڑ کر دیکھ لیں گوگل سے معلومات لینی نہیں پڑے گی، بےروزگاری کی شرح جاگتی آنکھوں سے نظر آ جائے گی۔
یہ سارے تو معمولی اور چھوٹے موٹے مسائل ہیں اصل مسئلہ تو موجودہ دن میں بجلی کے بل ہیں۔ بیس، پچس ہزار تنخواہ لینے والوں کو بل اگر تیس ہزار آئے، تو بچارا پورا مہینہ کیا کھائے؟ کہاں جائے؟ اور یہ فقط لفاظی نہیں بلکہ ایک عام شہری کا درد ناک مسئلہ ہے۔ کمرشل ایریاز کے بل توبہ استغفار۔ ماہ جون، جولائی اور اگست کے بجلی بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ نے بجلی کی قیمت کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ تین بلب اور دو پنکھے چلانے والے شہریوں کا بل دس ہزار، جو اپنے گھر میں فریج، ٹی وی کی سہولت رکھنے سے معذور ہیں۔ وہ دس ہزار بجلی کا بل بھرنے کی استعداد رکھتے ہیں؟
ویسے میرے ملک کے سیاستدان، بیورو کریٹس انتہائی محب الوطن اور قوم دوست ہیں۔ قوم کی ذرا سی تکلیف پہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ اور مجبور قوم کی داد رسی کے لیے اقتدار کے حصول کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اقتدار کے حصول کے لیے تن، من، دھن(دھن نہیں، یہ صرف محاورتاً لکھا، تن اور من کی بات الگ ہے) کی بازی لگا دیتے ہیں تاکہ کرسی پہ بیٹھ کے بچاری، بدحال قوم کے مسائل حل کر سکیں۔
اب یہ قوم اگر بجلی کے بل حکومت کے منہ پہ مارے اور بل ادا نہ کرنے کی دھمکیاں لگائے تو شرط ٹھہری کہ اپنے حق میں بولنے والوں کو یہ ہی حکمران (کوئی فرق نہیں پڑتا، حکمران جس فرقے یعنی جماعت سے ہیں، اس قطار میں سبھی برابر ہیں) دہشت گرد قرار دے کر گھروں سے اٹھوا لیں گے اور یہ کام سر انجام دینے قوم کے محافظ پولیس اہلکار ہی جائیں گے۔ بھلا اس قوم کی ایسی جرات کہ اپنے حق کے لیے بولے اور حکومت کو آنکھیں دکھائے۔ بے شک یہ حقیقت ہے کہ بل کی ایسی بڑی رقم کی ادائیگی اس مفلس قوم کی اوقات سے باہر ہے۔ لیکن اس کے باوجود بل کی ادائیگی لازمی ہے۔ ورنہ بجلی کاٹ دی جائے۔ اور جو تین بلب اور دو پنکھے لگا کے یہ قوم خود کو باشعور سمجھ کے حکمران منتخب کرتی ہے۔ تو یہ حکومت شعور سارا دماغوں سے نکال کے بلب اور پنکھا چلانے کی سہولت بھی چھین لے گی۔
اب ایسی غنڈہ گردی تو صرف سیاست دانوں کو زیب دیتی ہے کہ وہ جسے چاہے آنکھیں دکھائیں، جسے چاہے گالیاں دیں، اور جسے چاہے دھمکیاں لگائیں۔ قوم کے پیسوں سے اپنے خزانے بھریں اور اپنی سات پشتوں کا مستقبل سنوار دیں۔ اس کے بعد مخالف سیاست دان ان پہ کیس بنائیں، مگر عدالتیں انھیں ریلیف دیں۔ ان کی ضمانتیں قبل از گرفتاری منظور ہو جائیں۔ ان پہ انچ تک نہ آئے۔
ایسی سہولت کا مطالبہ ایک عام شہری بجلی کا بل زیادہ آنے اور اس کے جواب میں واپڈا کے خلاف غنڈہ گردی کرنے کے بعد کرے، تو کیا وہ بیوقوف نہیں۔ یا اپنی اوقات بھول گیا ہے۔ اس لیے میرے پیارے پاکستانیو، روٹی کی قیمت چاہے پچاس روپے ہو جائے، تم فاقہ کر سکتے ہو، بول نہیں سکتے۔ پیڑول کی قمیت چاہے پانچ سو روپے فی لیٹر ہو جائے تم پیدل چل سکتے ہو، بول نہیں سکتے۔ بجلی کا بل پچاس ہزار روپے آ جائے تم بجلی کٹوا سکتے ہو، مگر بول نہیں سکتے۔ کیونکہ تمھیں بولنے کی اجازت تمھارے من پسند سیاست دان نہیں دیتے۔ اور اس ملک کی عدلیہ اگر تمھیں لگتا ہے کہ عام شہریوں کو انصاف دینے کے لیے بنائی گئی ہے تو میرے ملک کے عام لوگو! آخر تمھاری یہ نادانیاں کس روز ختم ہوں گئیں؟