Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Hamara Awaleen Qaumi Masla

Hamara Awaleen Qaumi Masla

ہمارا اولین قومی مسئلہ

جب سے پاکستان میں عمران خان کے حوالے سے سائفر آیا ہے۔ اب اللہ جانے، وہ ٹرانسکرپٹ ہے، لیٹر ہے، سائفر ہے یا مزید اور بھی کچھ ہے؟ خیر، جب سے ملک میں پیر سائفر کی تشریف آوری ہوئی ہے۔ اس دن کے بعد سے موجودہ دن تک ہم صرف سائفر کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اور یہ قصیدے دونوں اطراف سے پڑے جا رہے ہیں۔ صنف قصیدہ کی تھوڑی سی وضاحت کردوں قصیدہ شاعری کی وہ صنف ہے۔

جس میں کسی کی تعریف یا برائی میں نظم کہی جاتی ہے۔ اور سائفر سے متعلق بھی یہی ہو رہا ہے، تمام ریاستی ادارے، میڈیا(پرنٹ اور ڈیجیٹل)، حکومت، اپوزیشن سب ہی سائفر کے آنے اور اب اس کے غائب کے قصے سنانے یا مصروف ہیں۔ یوں جیسے پاکستان کے سبھی مسائل ختم ہو چکے ہیں، نہ ہمارے ملک میں مہنگائی ہے نہ بھوک و افلاس، نہ بےروزگاری نہ کوئی تعلیمی مسئلہ، صرف قومی اور ملکی ایک مسئلہ ہے۔

کہ امریکہ کے ایمبیسیڈر نے سائفر میں عمران خان کی حکومت کو گرانے کی بات کی ہے۔ امریکہ ملک کے دو تہائی اکثریت سے منتخب وزیراعظم کی حکومت کو گرانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اسکی جرات کیسے ہو کہ وہ ملک میں امپورٹڈ حکومت لے کر آئے۔ پی ٹی آئی کا کوئی جلسہ ہو یا ان کی پارٹی کے کسی بھی ممبر کی میڈیا ٹاک، ایک بیان چل رہا ہے۔ سائفر ثابت ہو گیا وہ سچ ہے، عوام کے سامنے آ گیا۔

دوسری جانب حکومت سائفر غائب ہو گیا، عمران خان جاتے ہوئے اسے ساتھ لے گیا۔ عمران خان، حکومت جھوٹی ہے، سپیکر نے سائفر کابینہ میں بجھوایا تھا، میرے پاس موجود سائفر کی کاپی تھی، گم ہو گئی اوریجنل سائفر وزارتِ خارجہ کے دفتر میں موجود ہے۔ پھر حکومت کے سامنے مائیک آیا تو فرمایا گیا سائفر کی حقیقت کھل گئی، اس کو بیناد بنا کر ملکی و قومی مفاد سے کھیلا گیا۔

عمران خان سے پوچھا گیا تو جواب ملا سائفر کی حقیقت اور حیثیت عوام کو پتہ چل چکی ہے۔ میری حکومت کو گرا امریکہ نے چوروں کو ہم پہ مسلط کیا ہے۔ ہم پاکستانی عوام بھی کتنے سادہ اور بیوقوف ہیں، سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں ہم لکڑیوں کی جگہ جلائے جا رہے ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر نے کہا ترقی میرے پیچھے چلنے میں ہے۔ ہم نے اپنے سب کام چھوڑے یہاں تک کہ کھانا پینا بھی موقوف کیا اور چل پڑے اسکے پیچھے۔

بیچ راستے میں پتہ چلا کہ اس کا دکھایا راستہ تو آگے سے بند ہے اور بند موڑ پہ جناب سیاسی لیڈر کا بنگلہ ہے۔ لہذا اب وہ شہرت کے نشے میں چور اپنے بنگلے میں آرام کرنا چاہتا ہے، لہذا عوام واپس چلی جائے۔ ہم بیوقوفوں نے پھر گھر کی راہ لی۔ گھر پہنچے ہی والے تھے کہ اعلان ہوا اگر نسلوں کو سنوارنا ہے تو دوسرے لیڈر کی بیعت کر لو۔ لہذا پھر اپنا سب کچھ داؤ پہ لگایا تو دوسرے کی مریدی کرنے چل پڑے۔

بعد میں پتہ چلا مرشد سرکار تو آستانہ چھوڑ کے چلے گئے۔ اب مرشد بنا آستانے پہ کیسے بیٹھے رہتے پھر گھر کو مڑ آئے۔ ہم پاکستانی سادہ لوح قوم ہیں، اسی لیے پچھتر سالوں سے کبھی اس در تو کبھی دوسرے در پہ بھٹک رہے ہیں نہ اپنی نسلوں کو سنوار سکے نہ ہی ان کے مستقبل کے لیے کچھ جوڑ جمع کر کے رکھ سکے۔ جیسے ہم غلام تھے۔ ہمارے بچے بھی عنقریب امرا و حکمرانوں کی غلامی میں چلے جائیں گے۔

اور یہ سلسلہ یونہی نسل در نسل چلتا رہے گا، خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، کیسا خوب شعر کہا علامہ اقبال نے، کیونکہ ہم پاکستانی قوم کو اپنی حالت کی کیا پرواہ، مہنگائی سے ہمیں سروکار نہیں، جس دام مال بک رہا ہے خرید لیتے ہیں۔ ہمارے بچے ہماری طرح ہی بھوکوں مریں تو کیا؟ یہ ان کی قسمت ہے، جیسا باپ ہو گا بیٹا بھی تو اسی طور چلے گا۔

ہم اپنی بجائے اپنے حکمرانوں کی حالت سدھار رہے ہیں، اپنا خون پسینہ بہا کر، ان کے اثاثوں و نسلوں کی حفاظت ہم اپنی جانوں پہ کھیل کر کرتے ہیں۔ اور آئندہ بھی کرتے رہینگے۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed