Halloween Tehwar
ہالووین تہوار
ابھی کل شام کی بات ہے، یونہی کزنز کے ساتھ شاپنگ کا ارادہ بن گیا، شام گہری ہو چکی تھی، کہہ سکتے ہیں رات کے تقریباً آٹھ بجے کا وقت ہو گا۔ کامی نے گاڑی ایک سنسان سڑک پہ روک دی اندھیرا بھی تھا اور آس پاس کوئی اور گاڑی بھی سواری بھی نظر نہ آئی کامی بولا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے؟ گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو رہی ابھی پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ چار پانچ سفید کپڑوں میں ملبوس، کالے بدصورت چہروں والے یا والیاں۔۔ منہ پہ جگہ جگہ سے بہنے والا خون اور سیاہ دھبے بدنما اور بھیانک لگ رہے تھے، گاڑی کے قریب آ گئے اور بھیانک اور دلخراش آوازیں نکالنے لگے ہم سب چیخنے لگے میرا تو برا حال تھا قریب تھا بےہوش ہی ہو جاتی۔
گاڑی کے شیشے بھی کھلے تھے اور وہ چاروں دروازوں کی اطراف سے اندر آنے کے لیے زور لگانے لگے ان کی بھیانک آوازیں اور ہم سب کی زوردار چیخیں، ایسا لگ رہا تھا درخت بھی ڈر کر بھاگ جائیں گے۔ کہ پاس ہی سے پولیس کی گاڑی کا سائرن بجنے لگا مردہ روحوں نے جو کچھ دیر پہلے چیخ رہی تھیں ماسک اور سفید لبادے اتار کے انسانی روپ میں آ گئیں جو زیادہ خوفناک لگنے لگا کہ ڈراؤنے چہروں والے سب کیسے نارمل اور خوبصورت لڑکے لڑکیاں بن گئے پولیس قریب آئی تو پتہ چلا کہ یہ ہالووین منانے والے منچلوں کا گروہ تھا جو کہ کامی(کزن) کی ان سے ملی بھگت تھی ہم سب کو ڈرانے کے لیے۔۔ Halloween ہالووین یا Halloweens جو کہ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "جب لوگ بھیس بدل کر اور بچے ڈراوٴنے منھ لگا کر شوخیاں کرتے ہیں " کے ہیں۔
ہالووین تہوار امریکہ میں منایا جانے والا ایک ثقافتی تہوار ہے۔ 31 اکتوبر کی رات کو امریکہ میں چھوٹے، بڑے نوجوان، مرد و خواتین، گلی کوچوں و سڑکوں پہ خوفناک شکلیں بنائے گھومتے نظر آتے ہیں اور جب ان کے پاس سے گزریں تو وہ ایک خوفناک قہقہہ لگاتے ہیں۔ کہ پاس سے گزرنے والوں کا دل دہل جاتا ہے۔ اس دن گھر کے باہر دروازوں، کھڑکیوں، دریچوں میں بڑے بڑے کدو کے اندر موم بتیاں جلا کر رکھتے ہیں۔ تاکہ وہ دور سے ڈراؤنے دکھائی دیں۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ ہالووین تہوار کا سراغ قبل از مسیح، برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس سے جا ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل، یکم نومبر سے اپنے نئے سال کا آغاز کرتے تھے ان کا ماننا یہ تھا کہ نئے سال سے ایک روز قبل یعنی اکتیس اکتوبر کی رات کو ان کے پیاروں کی روحیں زمین پہ آتیں ہیں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ اس رات مر چکی روحیں آزاد ہو جاتی ہیں اور ان کی زمین تک رسائی بہت آسان ہو جاتی ہے اس رات آسمان اور زمین کے درمیان کی بندش ٹوٹ جاتی ہے اور مردہ روحیں بآسانی زمین پہ اتر آتی ہیں۔
اس دور میں موسمی حالات کے پیش نظر فصلوں کی کٹائی کا کام ماہ اکتوبر کے آخر میں ختم ہو جاتا تھا کیونکہ نومبر سے راتیں سرد ہو جاتی تھیں سرد موسم کو وہ لوگ موت کا موسم یا موت کے ایام بھی کہتے تھے کیونکہ سردیوں میں شرح اموات بہت بڑھ جاتی تھی۔
نئے سال کے آغاز سے پہلے اکتیس اکتوبر کی رات کو ان کے عقیدے کے مطابق زندہ لوگوں اور مردہ روحوں کا درمیانی فاصلہ مٹ جاتا تھا اس لیے وہ اپنے پیاروں کی روحوں کو خوش آمدید کہنے اور انھیں خوش کرنے کے لیے آگ کے الاؤ جلاتے تھے اناج بانٹتے، جانوروں کی قربانی کرتے اور سروں پہ سینگ لگاتے تھے۔
انکا ماننا یہ بھی تھا کہ اس رات کو صرف اچھی روحیں ہی نہیں بلکہ بد روحیں بھی زمین پہ اترتی ہیں اور انسانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں لہذا انھیں بھاگنے کے لیے یہ لوگ گھروں کے باہر پیٹھا کدو پہ خوفناک شکلیں بنا کر اور ان کے اندر موم بتیاں یا آگ کی روشنی کر کے رکھتے تھے یا دروازے کے باہر مصنوعی خوفناک شکلوں والے بھوت یا چڑیلیں کھڑی کر دیتے تھے تاکہ بد روحیں انھیں دور سے دیکھ کر ہی راستہ بدل لیں اور گھر کے اندر داخل نہ ہوں اس سے وہ بدروحوں کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں گے اب اچھی روحوں اور بدروحوں کے متعلق بھی ان کا ماننا یہ تھا کہ جو شخص طبعی موت مرتا ہے یا اپنی پوری عمر گزار کے مرتا ہے وہ اچھی روح ہے اور بدروحیں وہ جو کسی حادثاتی موت کا شکار ہوتی ہیں جیسے جل کا مرنا، ڈوب جانا، خود کشی کرنا وغیرہ تبھی اکتیس اکتوبر کی رات کو خوفناک شکلوں کے میک اپ اور لباس پہن کر انھیں پاس آنے سے روکا جاتا ہے۔ چہرے پہ خون کے رنگ یعنی سرخ رنگ کے دھبے بنائے جاتے ہیں آنکھوں کے گرد گہرے کالے کے حلقے بنائے جاتے ہیں یا سرخ رنگ سے گہرے آنسو گرتے ہوئے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔
موجودہ وقت میں اس تہوار کو عالمی شہرت ملنے کا سبب یہ بھی ٹھہرا کیونکہ اس سے پہلے یہ صرف ایک علاقائی تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا مگر انیسویں صدی میں جب امریکہ دریافت ہوا تب بہت سارے یورپی باشندے امریکہ جا کر آباد ہونے لگے ان کے ساتھ ان کی ثقافت، رسم و رواج اور تہوار بھی اس علاقے میں آ گئے انیسویں صدی کے شروع تک ہالووین تہوار جنوبی میری لینڈ اور یورپی تارکینِ وطن چھوٹے پیمانے پہ مناتے تھے مگر انیسویں صدی کے آخر تک بہت سارے یورپی امریکہ میں آ کر آباد ہو چکے تھے اور آئرش باشندوں کی آمد سے امریکہ میں اس تہوار کو فروغ ملا یہ افراد اپنے ساتھ جو ایک نئی چیز لائے وہ تھی "ٹرک اینڈ ٹریٹ" اس کھیل کے تحت نوجوان لڑکے، لڑکیاں اکتیس اکتوبر کی شام کو عجیب لباس پہن کر، خوفناک چہروں والا میک اپ کر کے، گلیوں اور سڑکوں پہ نکل آتے ہیں اور گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر ٹرک اینڈ ٹریٹ کا بورڈ دکھاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی کھلاؤ ورنہ کسی طرح کی بھی شرارت کے لیے تیار رہو اس کے جواب میں گھر کے مکین انھیں ٹافیاں، چاکلیٹ، مٹھائی کھلا کر رخصت کرتے ہیں۔
اب موجودہ دور میں اکتیس اکتوبر کی رات کو مختلف ممالک میں لوگ بہت سارے پکوان بنا کر انھیں ڈراؤنے انداز سے سجاتے ہیں سرخ اور کالے رنگ کے مشروبات پینے کے لیے دئیے جاتے ہیں جن کا مقصد اپنے پیاروں کی روحوں کو خوش کرنا ہے۔ اب دھیرے دھیرے یہ ثقافت پوری دنیا پہ قابض ہوتی جا رہی ہے مغربی دنیا میں اس تہوار پہ پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں کاروباری دنیا بھی اس سے حصول افادہ کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہے اس غرض سے نت نئی خوفناک چیزیں مارکیٹس میں لائی جا چکی ہیں جن میں خوفناک ماسک زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ماہ اکتوبر کے وسط سے ہی ان چیزوں کی خرید وفروخت شروع ہو جاتی ہے آج کے دور میں یہ تہوار ایک تفریح کی شکل اختیار کر چکا ہے اب صرف امریکہ ہی میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں یہ تہوار ایک تفریحی تقریب کے طور منایا جاتا ہے لڑکے لڑکیاں خوفناک میک اپ، لباس اور ماسک پہن کر تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ ملک پاکستان میں عوام کی اکثریت اس تہوار کے مفہوم و تاریخ سے واقف نہیں مگر اسکے باوجود محدود حلقہ اس تہوار کو تفریح کے طور پہ مناتا ہے بلا شبہ بہت کم لوگ اس کی تاریخ کو جانتے ہیں لیکن نوجوان لڑکے لڑکیاں ماہ اکتوبر میں اسے تفریحأ منانا پسند کرتے ہیں۔