Tuesday, 24 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Ghalti Kis Ki

Ghalti Kis Ki

غلطی کس کی؟

مختلف نیوز چنیلز اور کالمز میں آج کل بےحد گرما گرمی چل رہی ہے۔ ایک طرف بات ہو رہی ہے عثمان مرزا کی اور دوسری طرف قصہِ درد منسوب ہو چلا نور مقدم کے پرتشدد قتل۔ دونوں واقعات شہرِ اسلام آباد میں سفاکانہ انداز میں انجام پائے۔ ہر کوئی اپنا اپنا نظریہ بیان کیے جا رہا ہے۔ مختلف لوگوں کی آراء جو پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ بلکہ باشعور طبقے کی جانب سے بھی سوالات کیے ہیں۔ وہ کچھ یوں، عورت جب جانتی ہے کہ معاشرہ خراب ہے تو باہر کیوں نکلتی ہے؟ ماں باپ کیا سوئے ہوئے ہیں جو بچیوں کی آمدورفت سے بےخبر ہیں؟ کب آتی ہیں کہاں جاتی ہیں۔ گھروالوں کو کچھ خبر نہیں۔ ہمارے معاشرے میں پردے کی کیا اہمیت ہے لڑکیوں کو کیوں نہیں سکھایا جاتا۔ یعنی ایک تو ظلم ہوا اور ظلم کی تمام تر ذمےداری بھی مظلوم کے سر۔ میں جانتی ہوں یہاں بہت سارے لوگ مجھ سے متفق نہیں۔

جب موٹر وے پہ تین بچوں کی ماں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو کہا گیا۔ عورت بےوقوف تھی آدھی رات کو اکیلی کیوں نکلی۔ جب عثمان مرزا نے ظلم کیا تو اکثروں کی جانب سے کہا گیا کہ وہ لڑکی کسی نامحرم مرد کے ساتھ گوشہ تنہائی میں آئی ہی کیوں؟ اگر گھر میں رہتی پردے کا خیال کرتی تو ایسا نہ تھا۔ بجا جناب! پھر نور مقدم کیس میں بھی ایک حلقے کی جانب سے آواز اٹھی کہ ایک عرصے سے نور ظاہر کے ساتھ تعلق داری میں تھی۔ کیوں ملتی تھی اسے؟ کیوں اس کے والدین نے اُسے مشرقی معاشرتی روایات نہ سکھائیں۔ کیوں بیٹیوں کو اتنی آزادی دی جاتی ہے۔ یہ بھی مان لیا وہ غلط تھی۔ مگر عزیزانِ محترم ہم انسان اشرف المخلوقات بنا کر اس زمین پہ اتارے گئے تھے ایک تنظیم شدہ معاشرے کے فرد ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر یہ بھی مانیے کہ یہ جنگل کاقانون ہوا کہ اگر بکری اپنے ریوڑ سے الگ ہو کر بھٹک جائے تو بھیڑئیے یا جنگلی شیر کی خوراک بن جاتی ہے کیا ہوا جی؟ شیر بھوکا تھا اکیلی بکری ہتھے چڑھ گئی۔ اور ایسی سوچ کے حامل افراد سے مودبانہ عرض یہ بھی ہے کہ اگر کل کلاں کو آپ کی بیٹی یا بہن کو بوجہ مجبوری ایسے معاشرے میں تنہا نکلنا پڑے کیونکہ وقت بادشاہ ہے کسی پل بھی دھارا موڑ سکتا ہے تو تب اگر جنگل کےقانون کے تحت انھیں نقصان پہنچے تو آپ کا گلہ نہیں بنتا کیونکہ شیر یا بھیڑیا بکری کی سیرت نہیں دیکھتے کہ آیا یہ بکری معصوم یا نیک سیرت ہے اور مجبوری سے تنہا رہ گئی ہے یا یہ بکری آوارگی کے شوق میں ریوڑ سے تنہا ہوئی ہے بلکہ وہ صرف اپنی بھوک دیکھتا ہے اور اُسے نگل جاتا ہے۔

یہ مشرقی معاشرہ ابتدا سے ہی تماش بین رہا ہے۔ سڑکوں، گلیوں، بازاروں، چوراہوں میں ہونے والے تماشے کو ٹھہر کر دیکھتا ہے۔ اور پھر دائیں بائیں ہو جاتا ہے کمزور کو اُس کی غلطی کا احساس دلاتا ہے۔ اُسے خود کو غلط کہنے پہ مجبور کرتا ہے۔ مگر طاقتور سے ڈر جاتا ہے۔ اُس کے سامنے خاموش ہو جاتا ہے۔ میں نے ابھی کچھ دن پہلے ملالہ کے دئیے نکاح مخالف بیان پہ اعتراضات کا سونامی سوشل میڈیا پہ دیکھا۔ وہ پاکستانی مسلمان لڑکی جس نے برطانوی میگزین کو انٹرویو کے دوران نکاح پہ سوال اٹھایا۔ اُس پہ انگلیاں اٹھانے والے مرد و خواتین نے ایسی فحش زبان اعتراضات کے دوران سوشل میڈیا پوسٹس اور کمنٹس کے دوران استعمال کی کہ میں حیران رہ گئی کہ یہ لوگ ملالہ کو دینی درس دے رہے ہیں کہ خود تہذیب سے محروم ہیں۔ اب اردگرد دیکھ لیں پاکستانی میں ہونے والے بہت سارے شدت پسند واقعات سے ہی یہ لوگ باخبر نہیں۔ اب کوئی گنی چنی آواز دائیں بائیں سے اٹھتی ہے جس میں پچاس فیصد غلط عورت کو کہہ دیتے ہیں اور پچاس فیصد لوگ اسے ظلم کہہ کر چیختے ہیں۔

ایک پل کو مان لیتے ہیں کہ یہ معاشرتی بےراہروری عورت کی بےپردگی کی وجہ سے ہے۔ تو پھر قانون بننا چاہیے کہ کسی بھی عورت کا بنا حجاب اور عبایا کے نکلنا منع ہے۔ اور کیوں نہ ہو اسلامی جمہوری معاشرے میں ایسی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ مگر رکیے۔ اس پابندی کے زمرے میں کیا میڈیا سے متعلق خواتین بھی آتی ہیں۔ جو فلمز، ڈراموں یا اشتہارات میں کام کرتیں ہیں۔ پردے کی پابندی تو پھر سب کے لیے ایک سی ہونی چاہیے۔ اصول سب کے لیے ایک سے بننے چاہیے۔ پھر دیکھتے ہیں کہ آیا معاشرہ بہتری کی طرف جاتا ہے یا مزید بدحال ہو جائے گا۔

ابھی کچھ دن پہلے ایک خاتون نے مضمون لکھا کہ کیوں معاشرے میں جنسی ہوس بڑھتی جا رہی ہے۔ والدین بچوں کی تربیت کس طرح کرتے ہیں۔ تقریباً پانچ سو الفاظ پہ مبنی یہ مضمون تھا۔ اُس خاتون کے الفاظ کے جواب میں ایک بائیس سالہ لڑکے نے بڑے کھلے لفظ استعمال کیے کہ "دیکھیے محترمہ جنسی تعلق ہوس نہیں ضرورت ہے اگر ضرورت سیدھے طریقے سے پوری ہو تو ٹھیک ورنہ دوسرے بھی بہت راستے ہیں۔"

کمال ہے ناں، پھر کہا جاتا ہے کہ عورت کی غلطی تھی۔

Check Also

Saanp Ghar

By Rao Manzar Hayat