Beti
بیٹی
لکھنے والے زمانہ ماضی کو جاہلیت کا دور لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اُس دور میں لوگ عقل و شعور سے عاری تھے وہ بہت ساری ایسی سہولیات جس سے آج ہم افادہ حاصل کر رہے ہیں وہ اُن سے نابلد تھے۔ لیکن جب ہم مصر و یونان کی تاریخ کا حال سنتے ہیں تو ایسا کہیں نہیں بلکہ وہ لوگ تو صدیوں پہلے بھی مصوری، لباس، زیورات، نقاشی، تعمیرات، موسیقی میں اپنی مثال آپ تھے۔ بلکہ آج بھی اُن کے فن پارے یہ سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں کہ یہ لوگ تو ہم سے بھی زیادہ تہذیب یافتہ تھے۔
اتنے عقل و تہذیب رکھنے کے باوجود وہ لوگ بیٹیوں کی پیدائش سے ڈرتے تھے۔ جب اُن کے یہاں نئے مہمان کی سرگوشی گردش کرتی تھی۔ رات دن حاملہ خاتون کو ایک ہی سبق رٹایا جاتا تھا کہ بیٹا ہونا چاہیے۔ بیٹی ہوئی تو مار دیں گے۔ اورحقیقتاً بیٹیوں کو ماد دیا جاتا تھا۔ یا تو اُن کے پیدا ہوتے ہی انھیں مختلف طریقوں سے مار دیا جاتا تھا کبھی گلا گھونٹ کر، کبھی زندہ دفنا کر، کبھی تو ظالم گردن کاٹ دیتے تھے۔ یا پھر پیدائش کے کچھ عرصہ بعد، اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لیے۔ کہ اگلی بار پربھو اسے بیٹا بنا کر بھیجنا۔ آج جب ہم اپنے پیاروں کو جب مردہ حالت میں دفناتے ہوئے دیکھتے ہیں تو جسم میں سرسری دوڑ جاتی ہے کہ یہ ہمارے پیارے اب کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ مگر کیسا جگرا تھا پرانے وقت کے اُن لوگوں کا کہ وہ بچیوں کو زندہ ہی دفنا دیتے تھے اور اُس بچاری کو تو یہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آخر کس جرم کی سزا کے طور پر زندہ زمین میں گاڑھی جا رہی ہے۔
ایک بار میں انٹرنیٹ پہ ہسڑی سے متعلق کچھ تفصیل تلاش کر رہی تھی اس دوران میں نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا پرانے وقتوں میں کسی قبیلے کے ایک شخص نے اپنے گھر میں پیدا ہوئی بچی کو اٹھایا۔ شام کے وقت اپنے دیوتا کے سامنے لایا وہ بچی فقط ایک کپڑے میں لپٹی تھی اْس نے اُسے اپنے سر سے اوپر تک اونچا کیا اور تیز آواز میں بولا۔ پربھو یہ تمھیں واپس بھیج رہا ہوں اگلی بار بیٹا بنا کر بھیجیو۔ اور اُس ظالم نے اُس زندہ بچی کو لے جا کر پانی میں پھینک دیا۔ اور وہ اتنی چھوٹی تھی کہ بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں بھی نہ مار سکی اور ڈوب گئی۔
بیٹیوں پہ ایسا ظلم کرنے والے فقط آدم کے بیٹے ہی نہ تھے۔ بلکہ گھر کی عمر رسیدہ خواتین بھی ایسی دھمکیاں دیا کرتی تھیں حوا کی بیٹی سے نفرت، اور اسے دنیا میں نہ لانے کی خواہش خاندان کی بزرگ خواتین میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے بسا اوقات تو بار بار بیٹی پیدا کرنے والی ماں کو بھی اس جرم کی پاداش میں یا تو چھوڑ دیا جاتا تھا یا اُس کی جگہ دوسری عورت لے آتے تھے کہ یہ بیٹا پیدا کرے گی مجھے حیرانگی اس بات پہ ہوتی یے۔ کہ عورت ہی عورت کے خلاف آ کھڑی ہوتی ہے۔ ایک وہ عورت جو خود ماں کے پیٹ سے نسوانی وجود لے کر نکلتی ہے وہی دوسری عورت کو بیٹی پیدا کرنے کی سزا دیتی ہے۔
مرد جس کے لیے عورت سکون دینے کی مشین ہے وہ یہ بھول کر کہ اگر یونہی بیٹیوں کا مارا جاتا رہا تو نسلِ انسانی کی بڑھوتری کا عمل رک جائے گا۔ وہ جو بیٹوں کی خواہش میں بیٹیوں کو مار دیتے تھے وہ کیوں بھول جاتے تھے کہ اگر ایسے ہی لڑکیاں ختم کر دی گئیں تو ان کے بیٹوں کی نسل کیسے بڑھے گی ان کے سکون کا سامان وہ کہاں سے لائیں گے؟
خیر یہ تو زمانہ ماضی کا قصہ تھا کہنے والے کہتے ہیں کہ اب وقت بدل گیا ہے شائد کہہ سکتے ہیں مگر ابھی کچھ دن پہلے میں فیس بک پہ ایک لڑکی کی پوسٹ پڑھ رہی تھی جو کچھ یوں تھی۔ " کیوں عزت و غیرت کے نام پہ بیٹیاں وار دی جاتی ہیں۔ کسی عورت نے تو مرد کی بےحیائی پہ موت کا مطالبہ نہیں کیا۔"
بات اُس کی درست تھی مگر اس پوسٹ کے جواب میں ایک مرد کا کمنٹ آیا۔ "بی بی کیونکہ غیرت کا تعلق صرف مرد سے ہے عورت میں کیسی غیرت کہ وہ مرد کو عزت کے نام پہ قتل کرے۔"
یہ جواب میرے لیے بڑا حیران کن تھا اس کمنٹ کو پڑھ کر میں کتنی دیر سوچتی رہی کہ کیا ہم زمانہ جاہلیت سے نکل آئے ہیں یا ابھی بھی وہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔