Besabati
بے ثباتی
زندگی کی حقیقت بڑی تلخ ہے چار دن پہلے کی بات ہے میری کولیگ فائقہ نے صبح آتے ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ اگلے دن میری والدین کی شادی کی سالگرہ ہے مزید اسکا کہنا یہ بھی تھا کہ چونکہ اب میں اچھی تنخواہ لیتی ہوں لہذا میری خواہش ہے کہ اس سال ان کے لیے اس دن کو میں بہت خاص بنا دوں سارا دن وہ منصوبے بناتی رہی کبھی اِس سے مشورہ، کبھی أس کی رائے، کسی ایک بات پہ وہ متفق ہی نہیں ہو رہی تھی۔ دراصل وہ اس بار اپنے والدین کے لیے کچھ خاص کرنا چاہ رہی تھی۔
اسے دیکھ کر مجھے عجیب سی خوشی کا احساس ہو رہا تھا والدین کے لیے اس کی محبت دیدنی تھی۔ اسے دیکھ دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے ماں باپ چھوٹے بچوں کے جیسے ہو جاتے ہیں جنھیں وہ خوش کرنے کے لیے کیسے کیسے جتن کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں ماں باپ کے لیے بیٹیوں کی محبت تو ویسے بھی مثالی ہے ہمارے معاشرے کی بیٹیوں کے جذبہ خلوص و قربانی شاعر کیا خوب کہتے ہیں۔
خیر ہماری بچیاں اس حقیقت سے واقف ہیں کہ خاندانی توجہ و اہمیت کے معاملے میں وہ بیٹوں سے قدرے پیچھے ہیں اور ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ اس کڑوے سچ کو خوشی سے تسلیم کر چکی ہیں خیر بیٹا یا بیٹی کی اہمیت میرا موضوع بحث نہیں۔
فائقہ کو سبھی نے بہت سارے مشورے دئیے کسی نے سرپرائز پارٹی کا کہا کسی نے مختلف تحائف کی فہرست گنوائی، کسی نے چپکے سے اندھیرا کر کے کیک لانے کی رائے دی۔ یوں پسِ پردہ ہم سب ہی اس کی خوشی میں شامل ہو گئے آخر کار بات یہاں آ کر ختم ہوئی کہ فائقہ نے اپنے ماں، پاپا کے لیے بہت نئے ملبوسات خریدے گی جو وہ سالگرہ والے دن پہنیں گے اس کے ساتھ اس نے گلبرگ کے ایک ریسٹورنٹ میں جا کر شام کے کھانے کی بکنگ سالگرہ کے حوالے سے کروا دی اس کام میں، میں اور ہماری ایک اور دوست بھی ساتھ تھیں۔ فائقہ ویسے بھی اپنے والدین کے معاملے میں بہت جذباتی ہے۔ نوکری ملنے کے بعد سے اس کا معمول ہے کہ جس دن اسے تنخواہ ملتی ہے وہ اپنے والدین کے لیے من پسند کھانا آڈر کیا کرتی ہے۔
مگر آج صبح کالج پہنچنے پہ جو خبر میری منتظر تھی اسے سن کر زندگی کی بے ثباتی پہ میرا دل دہل کر رہ گیا۔ قسمت ایسی نامہربان بھی ہو سکتی ہے وقت یوں بے اعتنائی سے پلٹا بھی کھا سکتا ہے دماغ چکرا کر رہ گیا۔ فائقہ کے والد کی طبیعت کل شام یعنی سالگرہ کی اگلی شام قدرے بگڑنا شروع ہوئی، رفتہ رفتہ گبھراہٹ اور بےچینی شدید ہوتی گئی رات ایک بجے کے قریب سانس اکھڑنے پہ انھیں اتفاق ہسپتال لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹہ آئی سی یو میں گزارنے کے بعد وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
بہت بار فون کرنے پہ بھی فائقہ سے رابطہ نہ ہو سکا اور طے یہ پایا کہ کالج کے بعد سب اس کے گھر تعزیت کے لیے جائیں گے، اس وقت جب ہم سب فائقہ کے گھر اس کے والد کی تعزیت کے لیے جا رہے ہیں میرا ذہن مختلف سوچوں میں بٹا ہوا ہے ایک طرف یہ خیال کہ وہ لڑکی جو ہر دن یہ منصوبے بناتی رہتی تھی کہ اپنے والدین کو کس طرح خوشی دے سکے، اس پہ اس وقت کیا بیت رہی ہو گی جب اسکی آنکھوں کے سامنے اس کے والد کا مردہ و منجمد جسم پڑا ہو گا جسے وہ مزید اب کچھ پل ہی دیکھ سکتی ہے۔
دوسری سوچ یہ کہ ایک بکھرے ہوئے انسان کے لیے، کیا فقط محبت بھرے لفظ اور نرم لہجہ تسلی بن سکتا ہے کسی بہت اپنے کی جدائی کا نعم البدل صرف الفاظ ہو سکتے ہیں، مگر تمام سوچوں کی نوک اس نقطے پہ آ کر ٹوٹتی ہے کہ یہی نظامِ کائنات ہے موت برحق ہے اس حقیقت سے کوئی نظر بچا کے نہیں گزر سکتا جو ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہے اسے قبر میں اترنا ضرور ہے اور کسی کے ہونے سے نہ تو کارِ جہاں میں تیزی آتی ہے اور نہ ہی کسی کے چلے جانے سے دنیا کا کوئی بھی کام رک جاتا ہے یہ سارا نظام اسی طرح آج اور آئندہ بھی رواں دواں رہنا ہے جیسے کل تھا جیسے کالج میں آج فائقہ کی غیر موجودگی پہ کسی کام کو روکا نہیں گیا سارا نظام معمول کے مطابق چلتا رہا اور یہ ہی مٹی سے بنے انسان کی وقعت ہے کہ وہ انتہائی بے وقعت ہے وہ اپنی جسم کے سانسوں کے نظام سے بے خبر ہے خدا ہی جانے اگلا پل دیکھنا نصیب میں ہے یا نہیں!