Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Bachon Ka Adab

Bachon Ka Adab

بچوں کا ادب

"آس پبلی کیشن" کے زیر اہتمام "کہاوت کہانی" مقابلہ کئی دنوں سے جاری ہے۔ بہت سارے ادیبوں نے اس مقابلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مقابلہ کے آغاز کا دن تین اگست تھا مگر آج موجودہ دن تک "آس" پیج اور گروپ میں کہانیوں کی اشاعت جاری ہے۔ اور مجھے لگتا ہے ابھی مزید کئی دن تک کہانیاں پوسٹ ہوتی رہیں گی۔

"ابن آس" جناب ادب اطفال میں کسی تعارف کے محتاج نہیں، کسی ادبی محفل میں آپکا نام لے لینا ہی کافی ہے گفتگو آپ کے نام کے ساتھ خود بخود شروع ہو جائے گی۔ مزید یہ ادیبوں کے من پسند انسان بھی ہیں۔

"کہاوت کہانی" کے حوالے سے میں نے بھی ایک کہانی لکھی میری غلطی شائد میں اصول و ضوابط نہ پڑھ سکی۔ کہاوت کہانی کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کہانی چھے سے دس سال کے بچوں کے لیے ہونی چاہیے۔

کاتب مضمون نے بعنوان "تربیت" کہانی ایک جاپانی کہاوت پہ لکھی۔ کہانی کا مرکزی خیال یہ تھا کہ والدین کو بچوں کی تربیت کرتے وقت قول و فعل میں تضاد نہیں رکھنا چاہیے۔ جو چیز یا کام برا ہے اس کو اپنے عمل سے بھی ظاہر کریں۔ اس کہانی پہ بہت سے محترم و قابل قدر ادیبوں نے تبصرہ کیا کہ کہانی بچوں کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں لکھی گئی، میں نے واقعی مقابلے کے اصول و ضوابط نہیں پڑھے تھے اور نہ ہی میں بچوں کے ادب سے باضابطہ وابستہ ہوں۔ مگر ان کمنٹس نے میری سوچ کو بیدار کیا کہ کیا ہم جو جن پریوں، جانوروں، پرندوں، درختوں اور مافوق الفطرت موضوعات کی کہانیاں بچوں کو سناتے ہیں یا رسالوں میں لکھتے ہیں تو ایسی روایتی کہانیاں ہی موزوں ہیں۔

اس بات میں کہیں دو راہ نہیں کہ بچے قدرت کی سب سے خوبصورت تخلیق ہیں، ان کے معصوم چہرے، بیوقوفانہ باتیں، اوٹ پٹانگ حرکتیں ہمارا دل موہ لیتے ہیں اور ہم اپنی پریشانیاں، غم، مشکلات، جھگڑے ہر بات بھول جاتے ہیں۔ معاشرتی روایات کے زیرِ سایہ ہم خواہش کرتے ہیں کہ بچوں کو صرف کھیل تماشوں، کتابوں، کارٹونز، چاکلیٹس تک محدود رکھا جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں سات سال کی تھی تو اپنی تایا زاد سے ہنسی مذاق کر رہی تھی۔ ہم کلاس ٹیسٹ کی بات کر رہے تھے میں نے ہنستے ہوئے کہا "اچھا یہ تو پھر نقل کیس ہوا؟" میری والدہ یکدم غصے سے بولیں یہ کیا زبان بولی جارہی ہے؟ میں اور تانیہ آپی خاموش ہو گئیں۔ بہت عرصے بعد مجھے سمجھ آئی، کیونکہ میری والدہ ایک سادہ، کم تعلیم یافتہ اور گھریلو خاتون تھیں ان کے خیال میں لفظ "کیس" صرف بےبی ڈیلیوری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس لیے انھوں نے مجھے نقل کیس کا لفظ استعمال کرنے پہ سختی سے ڈانٹا۔

کہاوت کہانی مقابلے پہ لکھی میری کہانی نے مجھے یہ سوچنے پہ راغب کیا کہ ہمارے ملک کے بچے اور مغربی ممالک میں رہنے والے بچے کیا مختلف ہیں؟ ہم انھیں نام نہاد تہذیب اور ادب کے دائرے میں قید رکھتے ہیں ان کا سوال کرنا ہم پسند نہیں کرتے، جن پریوں، چاند کی بڑھیا، چڑیا گھر کے جانور، پرندے، روبوٹ، گڑیا کی کہانیوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔

مغربی دنیا میں بچوں کا پسندیدہ کردار سپائڈر مین بھی اپنے ساتھ ایک عدد ہیروئن رکھتا ہے بچوں کی فن ویڈیوز میں بھی ایک کرش موجود ہوتا ہے۔

دماغی معیار، سوچنے کی صلاحیتیں، غور و فکر کرنے کی قوتیں کیا تمام دنیا کے بچوں کی ایک سی نہیں، تو پھر کیوں دس سال کے بچے کو جھوٹ بولنے سے روکنے کے لیے کہانی"تربیت" غلط ہوئی؟ کیوں ایک بچہ والدین کو وقت پہ جھوٹ بولنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ کیا یہ بہتر ہے والدین کی طرح جھوٹ بولتے بولتے وہ خود بھی ایک دن جھوٹ بنا ڈر و خوف کے بولنے لگے۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad