Bache Aur Hum
بچے اور ہم
کل ٹی وی دیکھتے ہوئے ایک خبر سن کے روح کانپ اٹھی۔ "کراچی کے ایک رہائشی نے اپنے بارہ سالہ بیٹے کو جلا دیا۔ " وجہ یہ تھی کہ بچہ پڑھائی پہ توجہ نہیں دیتا تھا سکول کا کام نہ کرنے پہ باپ مشتعل ہو گیا اور بچے کو آگ لگا دی۔ دو دن اسپتال میں شدید اذیت سہنے کے بعد بچہ چل بسا۔ بیٹے کی وفات کے دو دن بعد ماں نے پولیس میں رپورٹ لکھوائی۔ کچھ دیر تک تو میں سوچتی رہی کہ کیا وہ وحشی اس بچے کا حقیقی باپ تھا؟
مگر ایسا کہیں ذکر نہ ملا کہ باپ سوتیلا تھا یا اسے شک تھا کہ یہ میرا بیٹا نہیں۔ پھر ذہن اس نکتے پہ آ کر منجمد ہو گیا کہ کیوں ہمارے معاشرے میں بچوں کو آزادی نہیں دی جاتی؟ کیوں ماں باپ اولاد کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں؟ اگر بچے کی توجہ تعلیم کی طرف نہیں، تو ہم جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ بچہ کس چیز میں دلچسپی لیتا ہے؟ صرف تعلیم حاصل کرنے والے ہی تو اپ ٹو ڈیٹ بابو نہیں بنتے۔
بعض بچے تعلیم میں نکمے ہوتے ہیں مگر وہ بہت اچھے کھلاڑی ہوتے ہیں، کرکٹ، بیڈمنٹن، سکوائش، سنوکر، شطرنج، کیرم کے ماہر ہوتے ہیں بعض بچوں کو خدا نے بہت سریلی آواز سے نواز رکھا ہوتا ہے، بعض تکنیکی کاموں کے ماہر ہوتے ہیں۔ تو کیا انھیں یہ حق نہیں دینا چاہیے کہ وہ اپنی من پسند فیلڈ جوائن کر سکیں؟ ہر بچے کا ذہن مختلف ہوتا ہے۔ اس کے مشاغل مختلف ہوتے ہیں۔ اس کی سوچ ہر ایک جیسی نہیں ہوتی، تو کیوں اسے مجبور کیا جائے کہ وہ والدین کی پسند اور رضا کا پابند ہو جائے۔ کیا صرف اس لیے کہ اسے پیدا کرنے اور پرورش کرنے والے وہ دو لوگ ہیں۔
میڑک کے بعد انٹر میں، میں نے سوکس اور اکنامکس شوق سے پڑھ لی۔ گریجویشن میں بھی میرے والد نے میرے لیے اکنامکس مضمون ہی منتخب کیا میں نے جب کتاب دیکھی میرے ہوش اڑ گئے، یہ کیا؟ میں تو فیل ہو جاؤں گی۔ بس یہ ہی خیال مجھے رونے پہ مجبور کر گیا کیونکہ میں فیل نہیں ہونا چاہتی تھی۔ مگر میرے والد کی چونکہ خواہش تھی کہ میں اکنامکس پڑھوں، لہٰذا انھوں نے مجھے روایتی والد کی طرح جذباتی پن دکھایا۔
"ٹھیک ہے تم جو کرنا چاہتی ہو، کر لو میری خواہش تھی تم یہ مضمون پڑھو اگر نہیں، تو کل کالج جا کے مضمون تبدیل کروا لینا، مگر یہ یاد رکھنا یہ کتابیں میں بہت شوق سے تمھارے لیے لایا تھا۔ " فیل ہونے کا دکھ ایک طرف اور والد کی جذباتی باتیں ایک طرف، پھر مشرقی بیٹی کی والد کے لیے محبت جیت گئی، اور میں نے دو سال مجبوری اور محبت کی رو میں بہہ کر اکنامکس پڑھ لی۔ جو مجھے سمجھ بالکل نہ آئی۔
والدین تو یہاں تک اولاد کو مجبور کرتے ہیں تمھیں سائنس پڑھنی ہے انجینئر بننا ہے۔ کبھی تمھیں آئی ٹی فیلڈ جوائن کرنی ہے آرٹس نہ پڑھو وغیرہ وغیرہ۔ میری بہن کی بیٹی بہت ذہین ہے وہ اس وقت گلبرگ کے مشنری سکول میں پڑھتی ہے۔ سکول میں نصاب مکمل کروانے کے ساتھ وقتاً فوقتاً غیر نصابی سرگرمیاں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ چونکہ وہ بچی بہت پر اعتماد ہے۔ اس لیے کوشش کرتی ہے کہ ہر مقابلے میں حصہ لے۔ مگر میری بہن اور بہنوئی نے اسے سختی سے منع کر رکھا ہے کہ پہلے تعلیم، پھر باقی کام بعد میں۔
مگر مجھے سمجھ نہیں آتی، یہ باقی کام بعد میں کب؟ اگر بچہ ڈیبیٹر ہے تو اسے تقریری مقابلوں میں حصہ لینے دیں۔ اگر اچھی آواز ہے تو اسے گائیکی کے مقابلوں میں جانا چاہیے۔ کھیل اور باقی تمام غیر نصابی سرگرمیاں ایک صحت مند دماغ کے لیے بہت ضروری ہیں۔ بھارت میں والدین بچوں کی دلچسپی کے پیش نظر انھیں رقص اور موسیقی کی تعلیم بھی دلواتے ہیں اور بہت چھوٹی عمر میں۔ ہم نے کیوں اپنے بچوں کو صرف اپنی پسند، ناپسند تک محدود کر رکھا ہے؟ والدین ان کے سرپرست ہیں ان کی پرورش کرنے والے، ان کے محافظ، نہ کے انکی تمام تر زندگی کے مالک۔
سوچیئے۔