Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Ander Ki Halat

Ander Ki Halat

اندر کی حالت

دو ہفتے پہلے گھر میں کام والی خاتون کا فون آیا کہ "میری ساس فوت ہوگئی ہے، تین دن تک کام کرنے نہیں آ سکتی۔ " کئی سالوں سے گھر کا کام وہ ہی کرتی تھی صفائی، برتن، کپڑے۔ اب تین دن تک میں کس کس کام کو روک سکتی تھی۔ زبردستی اسے کام پہ بلانا بھی مناسب نہ تھا۔ لہٰذا گھر کا کام خود کرنا تھا کچن کا کام کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ جن برتنوں کو میں صاف ستھرا سمجھتی رہی وہ مکمل صاف نہیں ہوتے تھے۔ پلیٹ کا استعمال اس کی اوپری سطح سے ہے، استعمال کے بعد دھونے کے لیے کچن میں رکھ دیا۔ ماسی نے اوپر سے تو اچھی طرح دھویا پچھلی طرف کچھ توجہ نہ دی، بہت سارے برتنوں کی یہ ہی صورتحال نظر آئی۔

کام والی خاتون پہ غصہ جو آیا، سو آیا۔ مگر برتن کے اندر اور باہر کے حصوں کا فرق جب نظر کے سامنے آیا تو سوچ اس نکتے پہ بھی آ کر ٹھہر گئی کہ یہ ہی حال ہم انسانوں کا بھی ہے اوپر کا حصہ شفاف، اور دل و روح غلیظ۔ ہم دنیا کے سامنے خود کو کیسا پاکیزہ اور پارسا بنا کر رکھتے ہیں جبکہ دل کے خیال اور روح کی ناپاکی تو صرف ربّ جانتا ہے۔ ہمارا ذہن، دل، روح کیا ہمارے چہرے اور زبان کے ترجمان ہوتے ہیں؟ لیکن مسئلہ ایک یہ بھی ہے کہ دوسروں کے عیب فوراً نظر آ جاتے ہیں اور اپنے گناہ تک فراموش ہو جاتے ہیں ہمیشہ یہ لگتا ہے دوسرا غلط ہے اپنے اندر کبھی جھانک کے دیکھتے ہی نہیں۔

اوپر کی تصویر کیسی پیاری لگتی ہے۔ بالکل برتنوں کی طرح، اندر کا حال تب پتہ چلتا ہے جب مشکل پڑتی ہے تب اپنا موازنہ کرتے وقت سمجھ آتی ہے غلطی تو اندر ہے باہر کی صفائی تو بےمعنی ہے، جس طرح کام والی کی ساس کی وفات پہ تین دن ہم پہ مشکل پڑی تو پتہ لگا دوسرے پہ آنکھ بند کر کے یقین کرنے کا کیا نقصان ہوتا ہے۔ زندگی کے عام معاملات بھی ایسے ہی ہیں جب مشکل وقت آتا ہے تب ہی تو حقیقت کھل کے سامنے آتی ہے کہ جس پہ ہم آنکھ بند کیے بھروسہ کیے بیٹھے ہیں وہ اس یقین کے قابل بھی ہے یا ہم کبوتر کی طرح بلاوجہ معصومیت کی چکی میں پس گئے ہیں۔

مگر میں نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ رب تعالیٰ کی ذات کبھی بھی انسان کو دھوکے میں نہیں رہنے دیتی۔ قدرت ایسا رخ موڑتی ہے کہ سچ خود بخود آنکھ کے سامنے آ جاتا ہے دھوکہ چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو قدرت کی کاٹ اسے بےجان بنا دیتی ہے۔ "مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے" بس یہ یقین سکون دیتا ہے ورنہ ہم انسان اگر ایک دوسرے کے حاکم ہوتے تو شائد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا اور اس دنیا کو ختم ہوئے صدیاں ہو چکی ہوتیں۔

مگر اللہ ربّ العزت نے انسان کی صفت جانتے ہوئے ہر معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa