Amir Liaquat Aur Hum (2)
عامر لیاقت اور ہم (2)
عامر لیاقت کی پہلی اہلیہ بشریٰ نے جب ان سے خلع لی تو بچوں نے ماں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ تب سے عامر لیاقت کے حالات نے پیچھے کی جانب مڑنا شروع کر دیا دراصل ہمارے معاشرے میں عورت کو کمزور اور مظلوم سمجھا تھا اور مرد کو بااختیار اور ظالم، اس کے علاوہ بچوں کی محبت اور ہمدردی فطرتاً باپ کی بہ نسبت ماں کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے عوام کی بھی بھاری اکثریت کا خیال تھا کہ بشریٰ اقبال کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔
بشریٰ نے متعدد بار اپنے سابقہ شوہر کے لیے لفظ گھٹیا استعمال کیا بلکہ دوسری شادی کے بعد بشریٰ اقبال اور دعا عامر نے ایسے ہتک آمیز بیانات دئیے جس وجہ سے عامر لیاقت عوام کی نظروں میں گرنے لگے بچوں نے ان سے قطع تعلقی کا برملا اظہار کیا اس کے بعد عامر کی دوسری اہلیہ طوبیٰ نے بھی خلع کا کیس دائر کر دیا اور طلاق کا مطالبہ کیا عامر لیاقت اپنی پہلی بیوی اور اس کے روئیے کو غلط ثابت کر سکتے تھے اگر طوبیٰ ان کی آگے کی زندگی کی مستقل ہمسفر بن جاتی مگر ایسا نہ ہوا مجبوراً عامر کو اسے بھی طلاق دینا پڑی عامر لیاقت پہ منشیات استعمال کرنے کا بیان بھی سامنے آیا کہ یہ نشے کا عادی انسان ہے۔
پہلی دونوں بیویوں نے طلاق کے بعد سابقہ شوہر کے خلاف بیانات تو دئیے مگر اسے ایک طلاق یافتہ عورت کا غصہ کہہ سکتے ہیں عامر لیاقت کی طرف سے طوبیٰ کے کردار پہ بھی کچھ اعتراضات کیے گئے مگر معاملہ اس حد تک نہ پہنچا کہ ان کی بدنامی کے قصے گھر گھر مشہور ہو جاتے۔
پہلی بیوی اور بچے اپنی زندگی میں مگن ہو گئے وہ والد کی صورت سے بھی بیزار تھے حالانکہ عامر لیاقت عمر کے اس حصے میں تھے جہاں کہا جائے کہ انسان اب بچوں کا محتاج ہے تو غلط نہیں، کیونکہ اس دور میں انسان اولاد اور خاندان کے ساتھ کا متلاشی ہوتا ہے مگر عامر لیاقت سے یہ خوشی چھن چکی تھی دوسری، تیسری یا چوتھی شادی مرد کا حق ہے اور یہ حق اسے قانون یا مذہب دونوں طرف سے ہے لیکن دوسری یا تیسری شادی کرتے وقت مرد اگر عورت کا حسن اور کم عمری کو معیار سمجھے تو بسا اوقات یہ فیصلے گلے بھی پڑ جاتے ہیں ایک وفا شعار بیوی اور محبت کرنے والوں بچوں کا ساتھ چھوٹا تو عامر لیاقت کی زندگی کا زاویہ ہی بدل گیا طوبی سے طلاق کے بعد دانیہ سے شادی عامر کی زندگی کا ایسا خطرناک فیصلہ تھا جو ان کی زندگی ہی لے گیا۔
تنسیخ نکاح کے مقدمے کے بعد ان کی تیسری بیوی دانیہ نے کچھ ایسی ویڈیوز میڈیا والوں کو دیں جو عامر لیاقت کی ذاتی زندگی کا حصہ تھیں وہ باتیں جو میاں بیوی بند کمرے میں کرتے ہیں اگر وہ سوشل میڈیا کی زینت بن جائیں تو عزتوں کا جنازہ کیسے نکلتا ہے یہ ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یہ وہ وقت تھا جب ان پہ ہر طرف سے طنز، تنقید اور الزامات کے پتھر برسنے لگے کبھی وہ تیسری بیوی کو غلط ثابت کر رہے ہیں کبھی اپنے بچوں کو یاد کر کے رو رہے ہیں کبھی نشہ نہ کرنے کے الزام کی تردید کر رہے ہیں کبھی خود کو نعت خواہ اور مذہبی اسکالر کے طور پہ متعارف کروا رہے ہیں مگر میں نے ہر پلیٹ فارم کے کمنٹس سیکشن میں ان کے خلاف لوگوں کے اعتراضات ہی پڑھے کسی ایک نے بھی ان کی بات پہ کان نہ دھرا۔
اس سارے معاملے سے میں نے یہ جانا ہے کہ انسان ملازموں اور جانوروں سے وقتی طور پہ دل تو لگا سکتا ہے مگر ملازمین کے آسرے اور جانوروں کے محبت کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتا، زندگی گزارنے کے لیے اپنوں کی قربت اور دلجوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج جو یہ سوشل میڈیا دانشور ان کی اولاد کو غلط کہہ رہے ہیں یا عامر لیاقت کی پارسائی کے دعوے کر رہے ہیں تو یہاں میں یہ بات ضرور کہوں گی کہ کمنٹس سیکشن میں ان کی بیویاں یا بچے کمنٹس نہیں کرتے تھے میڈیا پہ ان کے میمز ان کی سابقہ بیویاں بنا کر اپلوڈ نہیں کرتی تھیں بلکہ یہ میں اور آپ، ہم سب لوگ تھے جو ایک زندہ انسان کے جذبات و احساسات کو اپنے مزاح اور دقیانوسی سوچ تلے روند رہے تھے آج جو بہت سارے لوگ دعا عامر اور احمد عامر کو غلط کہہ رہے ہیں کہ اور اعتراض کرتے نظر آ رہے ہیں کہ جب باپ کو ضرورت تھی تو کہاں تھی پدرانہ محبت، اب جائیداد کے لالچ میں یہ سب اکٹھے ہو گئے تو میں بھی اس معاشرے کے ان نام نہاد دانشوروں سے سوال کروں گی کہ کیا اس معاشرے میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اگر پچاس سالہ باپ کم عمر لڑکیوں سے تعلقات بنائے اور ان کے ساتھ عاشقانہ ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ اپلوڈ کرے، تو پریشان نہ ہونا یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے تمھیں کسی کو جواب دینے کی ضرورت نہیں، ہمارے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تو میں مانوں بھی کہ اس کے بچے لالچی اور نافرمان اولاد ہیں۔ بےشک مرد کو مذہب اور قانون کی آزادی ہے کہ وہ ایک وقت میں چار بیویاں رکھ سکتا ہے مگر کونسی بیوی برداشت کرتی ہے کہ اسکا شوہر اسے چھوڑے اور کم عمر لڑکیوں سے دل لگاتا پھرے۔
آج عامر لیاقت صحیح ہو گیا کیونکہ اب وہ اس منافق دینا کا حصہ نہیں رہا ویسے بھی ہم، زندہ لوگوں کا جینا حرام کر کے مرنے والے کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔
زندگی موت سے بدتر پہلے بناتے ہیں لوگ
پھر کہتے ہیں مرنے والے کو جینا چاہیے!
ہاں اس سب میں دانیہ اور اس کی والدہ کا کردار منفی تھا اور میں برملا اس بات کو غلط کہوں گی۔ شادی کیسے اور کیوں ہوئی؟ اس سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ وہی شادی تین مہینے میں ہی کس رنگ میں دنیا کے سامنے آئی۔
اس کے علاوہ میں ان سوشل میڈیا دانشوروں سے یہ بھی سوال کروں گی جو آج عامر لیاقت کے سچے اور مظلوم ہونے کی دہائیاں دے رہے ہیں تو اس بات کا جواب دیں، کہ ہمارے معاشرے اور معاشرتی روایات نے کب ہمیں اجازت دی کہ ہم کھل کر سانس بھی لے سکیں ہمیں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ قدم بھی یوں اٹھاؤ کہ تمھاری آہٹ کوئی نہ سننے پائے دنیا کے سامنے اپنی خواہشات کو دفن کر کے صرف مسکراتے رہو تاکہ دنیا کو اچھا لگے، اپنے ہر خوبصورت احساس کو ہر موڑ پہ قتل کر کے آگے بڑھو اگر تمھیں جینا ہے تو۔ اخلاقی روایات کے پاسدار بن کے رہو اگر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونا ہے تو۔
زندہ لوگوں سے زندگی نکال کر جینا اس معاشرے میں سکھایا جاتا ہے۔ تو ہم لوگ عامر لیاقت جیسے دیدہ دلیر کی اخلاق شکنی کیسے برداشت کرتے۔
آخر میں وہ شخص جب ہر جگہ سے مایوس ہو گیا ٹوٹ گیا تب بھی کسی کو رحم نہ آیا اس کے رونے کو مگرمچھ کے آنسو اور اس کی ندامت کو اداکاری کہا گیا وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا میں مذہبی اسکالر ہوں نعت خواہ ہوں بے گناہ ہوں سچا ہوں مگر یقین کس نے کیا؟ کسی ایک نے بھی نہیں، میں نے بھی نہیں۔
وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقین
پھر یوں ہوا کہ مر کے دِکھانا پڑا مجھے
اور پھر یوں ہوا کہ اس نے اپنا معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیا جو عادل منصف اور بےحد رحیم ہے اور دیکھو اس نے اپنے بندے کو کیسا سچا ثابت کیا کہ پھر ہر شخص اس کے سامنے جھوٹا ہو گیا
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے