Amir Liaquat Aur Hum (1)
عامر لیاقت اور ہم (1)
عامر لیاقت پاکستان کا ایک معروف و مشہور نام ہے ان کی وفات کے بعد سے ہر شخص ان کے متعلق کچھ نہ کچھ کہہ اور لکھ رہا ہے بےشک عامر لیاقت کی موت ایک بہت بڑا خسارہ ہے مگر ان کی اچانک موت نے ہم نام نہاد مومنین کے منہ پہ ایک زبردست طمانچہ رسید کیا ہے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہم منافق لوگ ہیں کل تک جو عامر لیاقت کو اخلاق سے گرے ہوئے القابات سے نواز رہے تھے یکدم وہ سبھی مرحوم کے ہمدرد بن گئے۔
کل تک اگر وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتا تھا یا رو کر اپنی بے گناہ ہونے کا بیان دیتا تو سب اس پہ ہنستے تھے میں اس بات سے انکار نہیں کروں گی کہ عامر لیاقت کی زندگی میں مجھے بھی ان کا وجود غلیظ لگتا تھا مجھے بہت غصہ آتا تھا جب نیوز چینلز، آن لائن ویب سائٹس، میڈیا آفیشل اکاؤنٹس عامر لیاقت کی خبریں لگاتے تھے میرا ذاتی خیال یہ تھا کہ میڈیا کو ایسے لوگ جو اخلاقی پستی میں ڈوبے ہوں ان کی ذاتی زندگی کی سستی خبروں سے معاشرے کو دور رکھنا چاہیے گو کہ وہ اب ہم میں موجود نہیں لیکن اگر میں اپنے قلم کو صرف ان کی حمایت یا اپنی صفائی لکھنے میں چلاؤں تو کیا اس قلم سے نکلے جھوٹے لفظ مجھے معاف کریں گے۔
میری ذاتی رائے عامر لیاقت کے بارے میں ایسی کوئی اچھی نہیں تھی خاص طور سے طوبیٰ کی طلاق اور دانیہ سے شادی کے بعد، ان کی اوٹ پٹانگ ویڈیوز، شوخی، چنچل پن یہ سب دیکھ کر مجھ سمیت ہر شخص عامر لیاقت کی ذہنی حالت پہ شبہ کر رہا تھا کہ کیا یہ شخص اپنے حواس کھو چکا ہے کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی عمر کا تقاضا کیا ہے؟ کیا اسے یہ زیب دیتا ہے کہ پچاس کی عمر میں اپنے بچوں کی عمر سے بھی چھوٹی لڑکی سے شادی رچاتا؟ اور لڑکی نہ صرف کم عمر تھی بلکہ وہ بھی گھریلو سوج بوجھ اور معاشرتی اطوار سے نابلد تھی پچھلے چھے ماہ میں عامر لیاقت کی میڈیا کوریج سے میں بہت عاجز رہی۔
معاشرتی سوچ اور اخلاقی روایات کو طول دینے سے پہلے عامر لیاقت کی زندگی سے متعلق کچھ حقائق جاننا ضروری ہے۔
عامر لیاقت شوبز اور سیاسی دنیا کا جانا پہچانا اور مقبول نام ہے اصل اور شناختی کارڈ کے مطابق ان کا نام عامر حسین تھا اور تاریخ پیدائش پانچ جولائی 1971 ہے آپ کراچی کے معروف سیاستدان شیخ لیاقت حسین اور بیگم محمودہ سلطانہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے نانا سردار علی صابری روزنامہ جنگ سے وابستہ تھے جبکہ والدہ بیگم محمودہ سلطانہ پاکستان کی پہلی باقاعدہ کالم نگار خاتون تھیں۔
شناختی کارڈ کے برعکس ان کا حقیقی پیدائش کا سال 1969 ہے کیونکہ جس زمانے میں صدر ایوب کے خلاف ملک گیر تحریک چل رہی تھی تو وہ اس وقت دو ماہ کے تھے جب ان کے والدین گرفتار ہوئے تھے۔ ان کے سن پیدائش میں ابھی بھی اختلاف ملتا ہے کیونکہ موجودہ دنوں میں میڈیا کے مطابق ان کی اسوقت عمر 49 سال ہے۔
عامر لیاقت حسین نے ابتدائی تعلیم 'علی سکول' سے حاصل کی اور 1986 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ سکول کے زمانے سے ہی وہ نعت اور تقریر کے مقابلوں میں حصہ لیتے رہے اور ان کا شمار اپنے عصر کے بہترین اور ابھرتے ہوئے مقررین میں ہونے لگا۔ 1988 میں انہوں نے پہلی بار سرسید کالج میں منعقدہ آل پاکستان ڈیبیٹ مقابلہ جیتا جس کے بعد مقرروں میں ان کی دھوم مچ گئی۔
تعلیم اور پیشہ روزگار میں خواہش کے باوجود بھی آپ میڈیکل کے ڈاکٹر نہ بن سکے۔ ڈاکٹر بننے کے شوق میں 1990 میں وہ سندھ میڈیکل کالج میں داخل ہوئے جہاں وہ ایم بی بی ایس کے طالبِ علم ہوئے مگر سندھ میڈیکل کالج میں اس وقت سندھی قوم پرستوں کا زور تھا اسی لیے بارہا آپ سندھو دیش کے حامی طالبِ علموں کے ہاتھوں زدوکوب ہوتے رہے جس پر جی ایم سید نے ان کا ساتھ دیا مگر جان کا خوف پھر بھی لاحق تھا، اسی لیے وہ میڈیکل کی تعلیم آخری سال میں چھوڑ گئے۔ ڈاکٹر بننے کے جنون میں آپ نے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا اور ایگزیکٹ نامی ایک بدنامِ زمانہ ادارے سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کا دعویٰ کیا جس پر اعتراض اٹھایا گیا کہ یہ ڈگری جعلی ہے اور پیسے دے کر خریدی گئی ہے۔
1991 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ "میری آواز سارے زمانے کی صدا ہے" منظرِ عام پر آیا جس میں انقلابی نوعیت کی نظمیں شامل تھیں۔
1994 سے 2001 تک عامر لیاقت صحافت، ایم کیو ایم اور ریڈیو کے آن لائن پروگرامز سے جڑے رہے 2002 میں جب جیو نے اپنی ٹرانسمشنز کا آغاز کیا تو یہ اس چینل سے وابستہ ہو گئے جیو نے عامر لیاقت کی زندگی کو ایک نیا موڑ دیا اور اس میں کوئی شک نہیں نے کہ انھوں نے بطور اینکر اور مذہبی اسکالر وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔
2002 کے عام انتخابات میں وہ کراچی سے حلقہ 249 سے ایم کیو ایم کی سیٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور انہیں صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور کا عہدہ بھی سپرد کر دیا جس میں وہ اعجاز الحق کے معاون تھے۔
جیو، اے آر وائی، ایکسپریس، اور آخر میں بول ٹی وی چینلز میں منفرد پروگرامز اور انوکھی اداکاری سے عامر لیاقت ہردلعزیز بن گئے، رحمان رمضان، جیو کہانی، انعام گھر ان کے مقبول پروگرامز میں سے ہیں۔
عامر لیاقت نے تین شادیاں کیں، ان کی پہلی اہلیہ سیدہ بشریٰ تھیں جن سے ان کے دو بچے ہیں جن میں ایک بیٹا احمد اور بیٹی دعا شامل ہیں تاہم 2020 میں بشریٰ نے عامر لیاقت سے علیحدگی کی تصدیق کر دی تھی۔ عامر لیاقت نے دوسری شادی کی تصدیق دسمبر 2018 میں کی، ان کی دوسری شادی طوبیٰ انور سے ہوئی لیکن یہ شادی بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور طوبیٰ نے بھی فروری 2022 میں عامر لیاقت سے علیحدگی کی تصدیق کر دی۔ فروری 2022 میں عامر لیاقت نے تیسری شادی دانیہ شاہ سے کی لیکن 3 ماہ بعد دانیہ نے تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کر دیا۔ (جاری ہے)