Ajab Haal Hai Mola
عجب حال ہے مولا
"یہ جو آپ نے لکھا ہے اس سے اذہان میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ "
میں کمنٹ پڑھ کر حیران رہ گئی حالانکہ میں نے تو تئیس مارچ کی اصل حقیقت لکھی تھی اور سوال کیا تھا کہ ان تینوں دنوں کو نصاب میں تفصیل سے شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ اور یہ اعتراض کیا تھا کہ تاریخ کے بارے میں نوعمروں کو مکمل آگاہی کیوں نہیں دی جا رہی؟ اس پہ کسی کو اکسانا میرا مقصد ہرگز نہیں تھا یا پھر اعتراض یہ بھی نہیں تھا کہ ہم صرف تئیس تاریخ کو ہی چھٹی کیوں منا رہے ہیں؟ سرکاری تعطیل کا کسی ایک دن ہونا یا نہ ہونا تو موضوع بحث نہیں تھا بلکہ عنوان کے مطابق تحریر تو یوم پاکستان کے تین دنوں کے بارے میں تھی اور نصاب میں ان تاریخوں کو شامل نہ کرنے کے بارے میں ایک سوال تھا۔
میں نے تحمل مزاجی سے جواب دیا۔ میڈم یہ تحریر اذہان کو انتشار بخشنے کی بجائے جلا بخش رہی ہے اگر غور سے پڑھیں تو مگر محترمہ کسی اور ہی دھن میں تھیں کہنے لگیں:عید الاضحی تین دن کی ہوتی ہے مگر عید صرف ایک روز ہی کیوں منائی جاتی ہے؟ اس بات کا پہلے جواب دیں۔ میں اب اس بات کا کیا جواب دوں؟ کیونکہ عید الاضحیٰ تو دس ذی الحج کو فرض ہے، قربانی اگر تین دن کرتے ہیں تو یہ ملت کا اجتماعی فیصلہ ہے اس میں عید تین روزہ کیسے ہوئی؟
مجھے خاموش ہونا پڑا، اب ایسی ذہانت کے سامنے میرا علم ناقص تھا حالانکہ محترمہ یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ ہمارا تعلیمی نصاب بہت ساری خامیوں سے بھرا پڑا ہے۔ سائنسی علوم کا تو ذکر چھوڑیں اردو مضمون کا سارا مواد تقسیم برصغیر سے پہلے کا ہے۔ ہم آج تک اس کو تبدیل نہیں کر پائے اس مضمون میں جدید وقت کے علماء مشائخ، شعرا اور ادیبوں کے حالات زندگی اور کارنامہ ہائے کار کی شمولیت یوں لگتا ہے سخت ممنوع ہے۔ مگر وہ خاتون حب الوطنی کے جذبے سے سرشار وطن کے سربراہان و اعلیٰ عہدے داروں کی خامیاں دیکھنے کو تیار ہی نہیں تھیں۔
نصاب ترتیب دینے والے تو خیر اس دور میں ناپید ہو چکے ہیں تبھی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ ہر کتاب پہ موجودہ سال نامہ تبدیل کر کے اسے نئے ایڈیشن کا نام دے دیتے ہیں۔ حالانکہ مواد اندر وہی پرانا ہوتا ہے صرف کور فوٹو تبدیل کرنے اور سال میں ترمیم کرنے سے اندر والا مواد نیا نہیں ہو جاتا، مواد میں ترمیم ایڈیشن کو نیا بناتی ہے۔ تئیس مارچ کی تاریخ کا حوالہ نصاب میں ایک ایسی کمی ہے جس کے متعلق ایک استاد ہوتے ہوئے میرے پاس الفاظ نہیں اور بحیثیت ایک معلم میں شعبہ تدریس اور اس کی پالیسیاں مرتب کرنے والوں اور اس نظام کو فروغ دینے والوں کی نااہلی پہ شرمسار ہوں۔
بہت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے شعبہ درس میں جن میں اردو اور انگلش میڈیم، نجی اور سرکاری مکتب سبھی شامل ہیں۔ اکثریت ان اساتذہ کی ہے جنھیں کہیں روزگار نہیں ملتا تو وہ معلم بن جاتے ہیں۔ اب ایسا معلم جو صرف روزی کمانے ہی سکول یا کالج آتا ہے اسے کیا سروکار نسلوں کی آبیاری کس طرز پہ کی جارہی ہے؟ خیر شعبہ تدریس کا المیہ ایک الگ بحث ہے۔ میں نے بہت سوچ بچار کے بعد ان محترمہ کو کمنٹ کیا کہ۔
"محترمہ آپ شائد ٹیچنگ فیلڈ میں نہیں ہیں اس لیے آپ نصاب کے متعلق بہت کم جانتی ہیں، کتابیں پڑھتے ہوئے ہم صرف رٹا لگاتے ہیں اور پڑھاتے وقت خود پہلے سمجھتے ہیں بعد میں درس دیتے ہیں، میں کالج میں لیکچرار ہوں اس لیے نصاب کی خامیاں اور نوجوان نسل کی لاعلمی سے بخوبی واقف ہوں اس مضمون کو لکھنے کا مقصد شائد آپ سمجھ نہیں پا رہی۔ "
میرا یہ جواب اس تکرار کا آخری کمنٹ ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد یا تو وہ میری بات سمجھ گئیں یا کہیں اور مصروف ہو گئی ہوں گی۔
سوشل میڈیا پہ آپ معاشرے کی روایات سے ہٹ کر کوئی پوسٹ لگا دیں یا کوئی ایسی بات جو ہمارے معاشرے میں پسند نہ کی جائے مگر ہو درست، تو اس پہ دس میں سے چھے لوگ اپنی رام لیلا سنانے بیٹھ جائیں گے کہ نہیں صاحب! ایسے نہیں، یہ بات تو ایسے درست ہے اور لکھنے والا شخص خود شرمندہ ہو رہا ہوتا ہے کہ یہ آخر میں نے کیا کر دیا؟ ایسا نہ کرتا تو بہتر تھا اس لیے کبھی کبھی تو میں بھی سوچتی ہوں اپنی سوچ کو معاشرے کے رنگ میں ڈھال لوں مگر پھر خیال آتا ہے اگر ایسا کر لیا تو قلم اور علم دونوں کا قرض اور فرض ادھورا رہ جائے گا۔