Aisha Ziadti Hadsa
عائشہ زیادتی حادثہ
وہ ٹک ٹاکر تھی۔ چوہ اگست کو مخصوص پاکستانی جھنڈے سے ملتے جلتے رنگوں والا لباس پہنا۔ اور شام کے وقت مینارِ پاکستان جشنِ آزادی منانے اپنے دوستوں کے ساتھ نکل پڑی۔ غلط تو تھی۔ ٹک ٹاکر لڑکیوں کو تو ویسے یہ معاشرہ اچھی گھروں کی لڑکیاں نہیں سمجھتا۔ ایسے میں وہ بھرے ہجوم میں نکل پڑی۔
ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہ ملکِ پاکستان جس کی سڑکوں، بازاروں میں چادر لیے ایک عام عورت محفوظ نہیں۔ چار سال کی معصوم بچی نشانہ ہوس بن جاتی ہے۔ سڑک پہ حصولِ علم کے لیے نکلی، تنہا لڑکی یا پھر ملازمت پہ جاتی شلوار قمیض پہنے، باریک دوپٹہ اوڑھے لڑکی فروغِ فحاشی کے زمرے میں آ جاتی ہے۔ چار سے چھے سال کی بچی فراک یا نیکر شرٹ پہنے مرد کی ہوس کو بڑھا دیتی ہے۔ غلطی تو ہے ناں ان سب کی، گھروں میں کیوں نہیں بیٹھتی۔ کیوں زندگی کے ہر رنگ کو جینے کی چاہ میں موت کی کنویں میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔ کیوں جنگل کے قانون بھول جاتی ہیں۔ جنگل میں طاقتور بادشاہ ہوتا ہے۔ اور جنگل کے بادشاہ کا کام صرف پھاڑ کھانا ہے۔
بلا خوف و خطر گھر سے باہر نکلیں گی تو جنگل کے درندے اگر انھیں پھاڑ کھائیں تو شکایت کیوں؟ شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ ابھی کچھ ہی دنوں بعد گردونواح سے آواز اٹھے گی۔ پردہ کرتی تو ایسا نہ ہوتا۔ گھر کے مردوں کے ساتھ نکلتی تو ایسا نہ ہوتا۔ ماں باپ اچھی دینی تربیت کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔ ویسے یہ تربیت ان معتبر سوچ و خیال لوگوں کو بیٹوں کے معاملے میں کیوں یاد نہیں آتی۔ کھلے عام مانندِ درندہ صفت مردوں کی آوارگی کو کیوں نہیں روکا جاتا۔
اگر عورت نے پردے نہیں کیا۔ گھر کے کسی مرد کے ساتھ نہیں نکلی۔ تو کس نے مجھے یا آپ کو اجازت دی۔ کہ انھیں ذلیل کریں۔ یوں معاشرے میں خوف و ہراس پھیلائیں۔ مینارِ پاکستان، نشانِ آزادی شرم سے زمین بوس ہو جانا چاہیے۔ جو ایک عورت کی برہنگی نہ چھپا سکا۔ شہرِ لاہور، زندہ دلانِ لاہور، محبتوں کا شہر، جس کی شان مینارِ پاکستان کے سامنے ایک عورت کو بےلباس کر کے ہوا میں اچھالا گیا۔ کسی شرم، کسی معاشرتی قدر کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا گیا۔ ادرگرد ہجوم تماشائی بنا کھیل دیکھتا رہا۔
"وطن کی مٹی گواہ رہنا۔۔۔۔۔۔۔" تیری قوم کے بیٹوں نے ایک پردہ نہ کرنے والی عورت کو سرِ عام سزا دی ہے۔ طالبان کی جیت کو فتحِ اسلام کہنے والے، ارتغرل غازی کے نام کی قمیضیں اور انگوٹھیاں پہننے والے، کہاں گئے چودہ اگست کو؟ کیا اقبال پارک میں ایک بھی مرد نہ تھا جو اُن درندوں سے اُس عورت کو بچا سکتا۔۔۔۔ یہ ایک سبق ہے، پاکستانی عورتوں کے لیے۔۔۔۔۔ انھیں سڑکوں پہ اکیلے دن کو بھی نکلنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ اُن کا مکمل شلوار قمیض پہن کر نکلنا بھی مرد کی شہوت کو بڑھا دے۔ عجیب معاملہِ ہوس ہے؟ عام سوچ سے بالاتر۔ ماہِ محرم کا بھی لحاظ نہیں۔ جشنِ آزادی کا بھی پاس نہیں۔
میں آج واضح لفظوں میں کہوں گی چاہے میری اس بات کو معاشرہ مجھ پہ ماؤں کی بےادبی کا الزام عائد کر دے۔ کیونکہ میرے نزدیک "لعنت ہے ایسی ماؤں پہ، جو ایسے درندے نما بیٹے پیدا کرتی ہیں اور بیٹوں کی ماں کہلوانے پہ فخر کرتی ہیں۔ جبکہ وہ جانتی ہیں کہ ایسے درندے عام جان کے لیے خطرہ ہیں۔ جو عورت کو دیکھتے اُس پہ جھپٹ پڑتے ہے۔ پھر آخر میں ان جیسے بیٹوں کی مائیں، بہنیں یہ کہتی ملتی ہیں۔"کہ عورت آخر گھر سے نکلی کیوں؟ اُسے پردے کا خیال کرنا چاہیے تھا۔" مرد تو درندہ ہے۔۔۔
اے بےوقوف انسانوں، اگر مرد درندہ ہے تو درندوں کا مقام معاشرہ نہیں بلکہ پنجرے ہوتے ہیں۔ ان معاشرتی اقدار کے رکھوالوں سے صرف ایک ہی بات کہوں گی۔ کہ جینے دو اس معاشرے میں عورت کو عزت اور خوشی کے ساتھ یا پھر خدا کو کہو کہ زمین پہ رحمت اتارنا چھوڑ دے۔۔۔ کیونکہ یہ رحمت اب سرعام برہنہ ہونے لگی ہے۔