Aisha Akram, Kya Sach Kya Jhoot
عائشہ اکرم، کیا سچ کیا جھوٹ
اکتوبر کے پہلے عشرے میں اقبال پارک واقعے سے متعلق بڑی پیش رفت ہوئی اس سے پہلے یعنی چودہ اگست سے تیسں ستمبر تک پولیس تفتیش میں عائشہ ایک وکٹم کی حیثیت رکھتی تھی۔ سوشل میڈیا پہ عوام کی جانب سے اس پہ شدید تنقید کی گئی کہ جب ہمارے مذہب میں بے پردہ نکلنا منع ہے تو یہ گئی کیوں؟ پھر اس کے ساتھ کسی محرم مرد کی غیر موجودگی اس کے کردار سے متعلق کئی سوال کھڑے کرتی ہے اس کی ٹک ٹاک ویڈیوز بھی فحاش اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر سے لبریز ہوتی ہیں غرض کہ سوشل میڈیا کی ہر ایپ پہ عوام کی جانب سے اس کے بارے میں برے الفاظ ہی پڑھنے کو مل رہے تھے اس کے باوجود حکومتی ادارے اسے تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مزید یہ بھی کوشش کر رہے تھے کہ اسے انصاف ملے تاکہ پھر سے کوئی اور عائشہ اس ملک میں سرعام بے آبرو نہ ہو۔
انسانی حقوق بردار تنظیمیں اور آزاد سوچ رکھنے والے مرد و خواتین سبھی عائشہ کی حمایت میں بول رہے تھے اور سطحی سوچ رکھنے والی عوام کو سمجھا رہے تھے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں نہ کہ ہر غلطی عورت کے سر ڈال کے مرد کو اس کے جرم سے بری الزمہ کر دیں، کہ اب ایک اور کہانی پڑھنے اور سننے کو ملی کہ عائشہ صاحبہ اور ریمبو ہی اس حادثے کے ماسٹر مائنڈ تھے عائشہ ریمبو پہ اور ریمبو عائشہ کے کردار پہ کیچڑ اچھال رہا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں اب حکومت، پولیس، اور انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں منہ دیکھ رہی ہیں کہ کیا کیا جائے؟
اس واقعے کے پیش آنے کے دس دن بعد جب پولیس پورے لاہور شہر میں گرفتاریاں عمل میں لا رہی تھی نوجوان لڑکوں کو موبائل فون کی لوکیشن اور ویڈیو میں چہروں کی شناخت ہو جانے پہ پکڑا جا رہا تھا تبھی ہی "عصمت اللہ" نے لاہور ہائیکورٹ میں خاتون عائشہ اکرم کے خلاف کارروائی کی درخواست دائر کی۔ درخواست گزارکا موقف تھا کہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز کے مطابق عائشہ اکرم نے فالوورز کو بلایا مینار پاکستان کے گارڈ کے مطابق عائشہ اکرم کے پاس دو بار بچ نکلنے کا موقع تھا مگر وہ وہاں رُکی رہی شہری نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ اس واقعے سے دنیا بھر میں پاکستان بدنام ہوا، ہجوم کو اکسانے پر عائشہ اکرم کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔
لاہور ہائیکورٹ عائشہ اکرم کے خلاف کارروائی کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی، عدالت نے قرار دیا کہ مقدمہ درج کرنے یا نہ کرنے کا حکم دینا سیشن عدالت کا کام ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کس طرح ہائیکورٹ میں شہری کے خلاف براہ راست درخواست قابلِ سماعت ہے، عدالت کس قانون کے تحت عام شہری کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
مگر اب کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالتی اہلکار ایک بار سوچیں گے ضرور، کہ ایک بار عائشہ کو بھی زیرِ تفتیش اگر لایا جاتا تو شاید کیس تاخیر میں نہ جاتا بلکہ یہ ساری حقیقت بہت پہلے کھل کر واضح ہو جاتی۔ نیوز چینلز اور عائشہ اکرم پہ کیچڑ نہ اچھالنے کی درخواست کرنے والے نیوز رپورٹرز اور انیکرز ساری حقیقت سامنے آنے پہ اب کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔
یہاں میں واضح کروں کہ 28 اگست 2021 کو "ڈیلی اردو کالم" ویب سائٹ اور ایک مقامی اردو اخبار میں چھپنے والے میرے آرٹیکل میں، میں نے یہ حقیقت کھول دی تھی کہ خاتون عائشہ کسی قسم کی ہمدردی کی مستحق نہیں اور پندرہ اگست کو میں نے جو بھی ان کے حق میں انصاف کے لئے تحریر لکھی وہ میری غلطی تھی۔ کیونکہ میں نے اپنا قلم ایک منافق اور جھوٹی خاتون کے حق میں انصاف مانگنے کی غرض سے استعمال کیا تھا اور اٹھائیس اگست کو اپنی اسی غلطی کو میں نے تسلیم کر لیا تھا۔ مگر باقی سب لوگوں کی آنکھیں اب اگر کھل کر سچ دیکھ رہی ہیں تو چلیں اچھی بات ہے "دیر آئے، درست آئے" والے محاورے پہ صبر کر لیتے ہی۔
میں یہاں یہ بھی واضح کروں میں عورت کو پردہ نہ کرنے پہ سڑک پہ کندھا مارنے یا جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگانے والے مرد کا ساتھ دوں گی۔ نہیں، بلکہ میرے لیے وہ مرد ہمیشہ غلط ہی رہے گا جو باہر نکلی عورت کو اپنی پراپرٹی سمجھ لیتا ہے اسے کندھا مار کے گزرنا یا ہوس بھری نگاہوں سے دیکھنا اس لیے اپنا حق سے سمجھتا تھا کہ وہ پردے میں نہیں۔ تو گھر کے اندر ان کی عورتیں بھی پردے کے بنا ایک دوپٹے میں ہی پھرتی ہیں انھیں گھروں کے صحن میں چلتے پھرتے کیوں ہوس بھری نظروں سے نہیں دیکھتے یا انھیں کیوں کندھا مار کے نہیں گزرتے۔
مگر عائشہ اکرم جیسی عورتیں معاشرے کو یہ سوچنے پہ مجبور کرتی ہیں کہ ہر وہ خاتون جو پردہ نہیں کرتی، فحاشی پھیلاتی ہے۔ ہر وہ عورت جو گھر سے باہر نکلتی ہے مرد کی پراپرٹی بن جاتی ہے۔ کیونکہ وہ گھر کے تحفظ سے باہر نکل جاتی ہے۔
جبکہ ایسا نہیں ہے آج بھی جی ٹی روڈ پہ تین بچوں کے ساتھ رات کو ایک بجے گھر سے نکلنے والی عورت جو زیادتی کا نشانہ بنی تھی۔ مظلوم تھی اور اپنے وجود کو گندا کرنے والے مردوں کے لیے تاعمر بربادی ہی کی دعا کرے۔ جبکہ عائشہ تو اپنے بیان میں پولیس سے درخواست کر رہی ہے کہ گرفتار ہونے والے سبھی مردوں کو چھوڑ دیا جائے ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔