Afsana Siasat
افسانہ سیاست
یہ گزشتہ برس کا ہی تو قصہ ہے کہ جب کسی نے سیاست کا ذکر کیا تو ہم نے اسے برجستہ یہ شعر سنایا۔
محبت کی تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے
اور پھر بھرپور قہقہے کے ساتھ اپنی فطرت کا خلاصہ بھی یوں پیش کیا کہ جناب دراصل طبیعت باغیوں کے قبیلے سے ملتی ہے اس لیے سیاست میں دلچسپی رکھنا درست فیصلہ نہ ہوگا۔
اپریل 2022 سے پہلے پہلے تک میں نے جو بھی لکھا یا یہ کہیے کہ جتنا بھی لکھا اسکے پہلو اور موضوعات کی گویا کوئی حد نہیں، مگر اس میں سیاست کہیں شامل نہ تھی۔ تعلیم کی دگرگوں حالت پہ حکومتی فیصلوں پہ تو لکھا مگر حکومتی نمائندوں کو براہ راست کبھی نشانہ نہ بنایا۔ کیونکہ میرا موضوعِ قلم کبھی بھی سیاست نہیں تھا فوجی ڈکٹیٹر کیوں ملک پہ مسلط ہوئے؟ انھوں نے کون کونسے درست اقدام اٹھائے؟ اور کہاں کہاں اپنی من مانیوں سے عوام کا بیڑا ڈبو دیا؟
نون لیگ کیوں معرض وجود میں آئی؟ اور اسی کی حریف پیپلز پارٹی جو کبھی عوامی پارٹی تھی اس کے نامور راہنماؤں کی شہادتوں کی فہرست میں کون کون شامل ہے؟ اور اچنبھے کی بات یہ کہ ایک وقت میں پیپلز پارٹی جس نے عوام کے دلوں پہ راج کیا اور ان کے چاہنے والے آج بھی موجود ہیں اسی پارٹی کی محترمہ کے قتل کا معمہ کیوں حل نہ ہو سکا؟ کون سا لیڈر کتنا کرپٹ ہے؟ اور کس نے زیادہ ملک کو لوٹا ہے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ نہ کبھی کسی سے اسکا تذکرہ چھیڑا، نہ کسی سے پوچھنے کی زحمت کی۔
ویسے میرے الفاظ پڑھنے والے قاری بھی مجھ پہ حیران ہو رہے ہوں گے یا پھر میرے قلم کی کم ہمتی پہ ملال کر رہے ہوں گے یہ سوچتے ہوئے کہ، اگر اہل قلم ملک کی پستی پہ آنکھ بند کیے سوئے رہیں تو عام آدمی کا پھر اللہ ہی حافظ ہے مگر مارچ کے دوسرے عشرے میں جب ہر جا عدم اعتماد تحریک کا شور مچا ہوا تھا عمران خان بوکھلائے بوکھلائے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہے تھے اور تیرہ جماعتوں کے گٹھ جوڑ نے عوام کو بھی حیران کر دیا کہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ایک ہی میز پہ کیسے بیٹھ گئے؟
مگر جب وقت پلٹا کھاتا ہے تب زمین کی خاک بھی سر پہ اڑنے لگتی ہے پرائے تو کیا اپنے بھی بیگانے بن جاتے ہیں۔ یہ ہی ہوا تحریک انصاف کے راہنما اور سابقہ وزیراعظم کے ساتھ۔ اس وقت آسمان کا رنگ ایسا بدلا کہ زمین والے سبھی ان کے خلاف ہو گئے ویسے میں نے بھی کبھی عمران خان کے حق میں نہیں لکھا اور نہ ہی مجھے ملک کے کسی بھی سیاسی راہنما سے ہمدردی سی ہے کیونکہ جتنے بھی اس قطار میں کھڑے ہیں عام پاکستانی کے خون کی بوندوں کو نچوڑ کر محل بنائے بیٹھے ہیں۔
ہاں بحیثیت کھلاڑی اور فلاحی رکن ان کا معاشرے میں بلند مقام ہے کرکٹ کے میدان میں عمران خان نے جو کامیابی حاصل کی اس کے بعد پھر کسی اور کھلاڑی کو وہ نصیب نہ ہوئی۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر سے وہ ملک کی ایسی شخصیت بن گئے جس کے مقابل اگلے کئی سال بھی کوئی دوسرا نہ آ سکتا تھا مگر 2018 کے انتخابات میں کامیابی اور اس کے بعد کے سالوں میں عمران حکومت کی غلط پالیسیوں نے سابقہ وزیراعظم کی جاذب شخصیت کا تمام شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔
میں مانتی ہوں کہ میں نے کبھی عمران خان کے سیاسی معاملات کی حوصلہ افزائی نہیں کی مگر یہ بھی ایک سچ ہے سیاسی کالمز کی جانب توجہ عمران خان کی وجہ سے ہی مبذول ہوئی۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اپریل 2022 کے بعد سے ملکی حالات کی بد صورت نے ہلا کر رکھ دیا موجودہ دن تک روزانہ کی سطح پہ بڑھتی مہنگائی نے عام شہری کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے جہاں دو وقت آسانی سے رزق مل جاتا تھا وہاں ایک وقت بھی کھانا مشکل ہوگیا ہے۔
پورے ملک میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو ایک عام شہری کی پہنچ میں بآسانی دستیاب ہو۔ ایک دن تین وقت پیٹ بھر کھانے کے لیے تیس دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے وہ بھی اس وجہ سے کہ تنخواہ ملنے والے دن تو عام انسان کے بچوں کا حق بنتا ہے کہ وہ آج پیٹ بھر کھائیں۔ اور پھر اس کے بعد اگلے تیس دن کا انتظار۔ اور ملک کی یہ بدحالی کہاں جا کے رکے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مگر میری تحاریر میں سیاسی موضوعات کا آغاز بھی گزشتہ سال کا ہی تحفہ ہے۔