Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Adeeb Ki Izzat

Adeeb Ki Izzat

ادیب کی عزت

آئے دن سوشل میڈیا پہ بہت سارے آن لائن کورسز کے بینرز نظر سے گزرتے ہیں۔ صحافت کورس، افسانہ نگاری کورس، کالم نگاری کورس، اسکرپٹ رائٹنگ، ڈرامہ نگاری کورس، شاعری کورس وغیرہ وغیرہ۔ دولت کے پیچھے بھاگتی اس دنیا میں جہاں اچھا اور نامور لکھنے والے بھی اپنے قلم کاری کی قیمت، فقط تعریفی کلمات کی صورت میں وصول کر رہے ہیں اور اگر کسی نے اپنا تحریری مواد چھپوانا بھی ہے، تو وہ اسے خود اپنی جیب سے پیسے دے کر شائع کروانا پڑتا ہے۔ ایسے میں نو آموز لکھاری کو کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ ملاحظہ کیجیے۔ ہو سکتا ہے بعض میرے لکھے سے انکاری بھی ہوں۔

* بہت سارے رسائل، اخبارات نو آموز لکھاریوں کو چھپاتے ہیں ۔مگر ان میں زیادہ تر رسائل و اخبارات کی اپنی ساکھ گمشدہ ہوتی ہے۔ ایک عام شخص ان اداروں کے نام اور سربراہان کے تعارف سے بھی آگاہ نہیں ہوتا۔مگر شکریہ ایسے اداروں کا جو بلا معاوضہ ادب کی ترویج اور نئے لکھاریوں کے ہنر کو دنیا کے سامنے لانے میں مددگار بنتے ہیں۔

* دوسری فہرست ان رسائل اور اخبارات کی ہے ،جن کے نام و کام سے بچہ بچہ واقف ہے ۔بلاشبہ وہ بھی بنا معاوضے کے ہی تحریریں چھپاتے ہیں، مگر ان کے پاس مواد اتنا وافر ہوتا ہے کہ نیا لکھنا والا اشاعت تو کیا ،ان اخبارات کے نمائندوں کی جانب سے موصول جواب سے بھی محروم رہتا ہے۔ کئی کئی دن تو لکھاری کی جانب سے بھیجا پیغام ،بذریعہ ای میل یا واٹس ایپ دیکھنے کی بھی نامی گرامی اداروں کے پاس فرصت نہیں ہوتی۔

اگر کبھی دیکھ لیں تو تحریر مکمل پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ اور اگر کبھی فراغت کے لمحات کثرت سے میسر آ جائیں کہ لکھاری کا نام و کام والا پیغام مکمل پڑھ لینے کے بعد ارسال شدہ تحریر بھی پڑھ لی، مگر پھر بھی لکھاری کو جواب دینا گوارا نہیں کرتے۔ (شہرت بھی بھئی کسی چڑیا کا نام ہے ،کہ نہیں؟) اور دوسری جانب وہ بچارا لکھنے والا جو اپنے احساس اور سوچ کو قلم کی سیاہی میں ڈبو کر صفحہ قرطاس پہ اتارتا جاتا ہے، تذبذب کا شکار رہتا ہے کہ شائد میرے لکھے میں کچھ کمی رہ گئی جو یہ قابلِ اشاعت نہ ہو سکا۔ یہ صورتحال تو تھی، بلا معاوضہ ادب اور ادیب کی خدمت کرنے والوں کی۔

* دوسری جانب بہت سارے ادارے ایسے ہیں،جو تحریروں کی آن لائن یا کتابی شکل میں اشاعت کے لیے لکھاریوں کو رجسٹرڈ کرتے ہیں، اور اس رجسڑیشن کی مد میں سالانہ فیس وصول کرتے ہیں جو پانچ سو سے دو ہزار تک ہوتی ہے۔ کیسا مضائقہ خیز امر ہے،لکھاری جو اپنی سوچ اور قلم کا استعمال کر کے قاری کو پڑھنے اور ادارے کو اشاعت کا مواد دے رہا ہے، وہی جرمانہ بھی بھر رہا ہے۔ ادیب کا پھر وہی حال ہوا مزدور، مزدوری کرنے سے پہلے خود ہی اجرت بھی دے اور کام کروانے والا مفت کا حلوہ کھائے۔

یہ رجسٹریشن والا معاملہ مجھ ناقص العقل بندی کی سمجھ سے کوسوں پرے ہے۔ تحریر موجودہ دور میں بذریعہ ای میل یا واٹسں ایپ بجھوا دی جاتی ہے، لکھاری سے وصول بھی کمپوز شکل میں کی جاتی ہے، تو رجسٹریشن کا جواز کیا؟ شائد بڑھتی مہنگائی کے اس دور میں لکھاری کی کمپوز تحریر کو کاغذی شکل میں بدلنے کی اجرت ہو بھئی، کاغذ کی قیمت لکھاری کیا جانے؟ وہ تو فارغ بیٹھا موبائل یا لیپ ٹاپ پہ اپنی سوچوں کو ٹائپ کرتا گیا ،اسے کیا پتہ کہ کاغذ کا اب بھاؤ کیا ہے؟ فارغ انسان کا کیا؟ کچھ بھی لکھ دے تو چھاپ دیا جائے۔ پیسے لگتے ہیں محترم۔

اس لیے عقلمند ادارے ،لکھاری کے لکھے کو چھاپنے سے پہلے ہی اس کی فارغ البالی کی قیمت وصول کر لیتے ہیں۔ یہ تو رسائل یا میگزین میں روزانہ یا ماہانہ لکھنے کی رجسٹریشن فیس ہے، موجودہ دور میں لکھاریوں کو ایک اور سہولت بھی دی جاتی ہے (ویسے کمال کا زمانہ ہے، ادیب کی خدمت میں کوئی کسر روا نہیں رکھتے مگر وہ کم ظرف ہیں کہ ہر وقت واویلا مچاتے رہتے ہیں کہ، ادب اور ادیب کی ناقدری کی جا رہی ہے)۔بہت سارے لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم پہ اکھٹا کیا جاتا ہے، پھر اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر لکھاری کو مقرر کردہ صفحات دئیے جائیں گے،جن کی تعداد دو سے شروع ہو کر دس صفحات تک جاتی ہے۔

اس مد میں ،ایک لکھاری سے کم از کم آٹھ سو اور زیادہ سے زیادہ تین ہزار قیمت وصولی جاتی ہے۔ویسے یہ طریقہ کسی جگہ بہتر بھی ہے کیونکہ اگر لکھاری یہ سمجھتا ہے کہ، وہ اپنے جیسوں سے منفرد ہے یا اسے کوئی خاص وصف ودیعت ہوا ہے، تو اس خاص وصف کو اگر دنیا جاننے اور سمجھنے کے لیے وقت دے گی، تو قیمت تو لے گی ناں بھئی۔ اب اگر قمیت ادا کر کے پبلش رائٹر ہی بننا ہے، تو بہتر ہے کہ پھر اچھا اور ستھرا لکھو۔ تو پھر طے ہے، بہتر سے بہترین لکھنے کے لیے ایسے بہت سارے آن لائن کورسز ضرور کیجیے مگر فیس ادا کر کے، مفت تو آج کے دور میں مشورہ بھی نہیں ملتا۔ اور پبلشر سے کبھی اپنے لکھے کی قیمت مانگنے کی غلطی مت کیجیے گا ،یہ سوچ لکھاری کی کم عقلی کے زمرے میں آتی ہے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari