Adam Etemad Tehreek Se Aik Din Pehle
عدم اعتماد تحریک سے ایک دن پہلے
پاکستان سیاست کی تاریخ کا ایک نیا موڑ۔۔ پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے موجودہ منتخب وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کر رکھی ہے جس پر تین اپریل کو ووٹنگ کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو موجودہ وزیرِ اعظم اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جائیں گے اس کے بعد کیا ہو گا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ مگر اس دنوں میں جو کچھ ملک پاکستان میں ہو رہا ہے یا قوم جس مشکل وقت سے گزر رہی ہے آخر اس کے پیچھے کونسے عناصر کارفرما ہیں؟
حکومت کیا خود کو بچانے کے لیے بےبنیاد سازشوں کے پٹارے کھول رہی ہے کیونکہ جس دن سے اپوزیشن سرگرم عمل ہے حکومتی انتظامیہ سربراہ وزیر اعظم عمران خان بھی اسی طرح جوابی حملے کر رہے ہیں پہلے سلسلہ جلسوں سے شروع ہوا پھر چینلز پہ خطابات اور صحافیوں سے ملاقاتیں ہونے لگی اپوزیشن اور حکومت آمنے سامنے دشمنوں کی طرح کھڑے تھے آدھی عوام اپوزیشن کی حمایتی اور آدھی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئی مگر حقیقتاً تو عوام خود سمجھ نہیں پا رہی کہ آخر یہ ماجرا ہے کیا؟
پہلے تو جھگڑا پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہی تھا جو ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنے پہ خوب زور لگا رہے تھے پھر جب اس سے کام بنتا نظر نہ آیا تو حکومت نے پنترا بدلا اور دس دن تک خط کی دھوم مچتی رہی۔ اپوزیشن تو اس سے ہراساں نہ ہوئی شائد اسے معلوم ہو خط میں ان سے متعلق سازش کا کہیں ذکر نہیں ہاں مگر عدلیہ اور فوج ضرور حرکت میں آ گئی وقت مقرر پر وزیراعظم نے سینئر صحافیوں سے ملاقات برخاست کر دی پھر آرمی انچیف کی ملاقات کے بعد عوام سے خطاب روک دیا گیا اسکے بعد سپریم کورٹ کا حکم نامہ جاری ہوا کہ خط عدالت میں پڑھ کر سنایا جائے بلاول بھٹو کا پیغام آیا کہ خط پارلیمنٹ میں پڑھا جائے مگر عمران خان بھی ٹس سے مس نہ ہوئے اپنی کر کے ہی چھوڑی اور اگلے دن خط منظر عام پہ آیا، کہا گیا کہ آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی وجہ سے مجھے نشانہ بنایا جارہا ہے بین الاقوامی سطح پہ مسلمانوں کی بات کرتا ہوں جو مغربی دنیا کے خداؤں کو گوارا نہیں اس لیے مجھے عہدے سے ہٹانے کی سازش کی جارہی ہے۔
وزیر اعظم کے اس اقدام کے بعد مغرب والے کیا خاموش رہیں گے سوچنے کی بات ہے کیا اندرونی معاملات اور آپسی ناچاقی کا سارا ملبہ بیرونی دنیا پہ ڈالا جائے گا تو کیا نتیجہ نقصان کی صورت میں سامنے نہ آئے گا یا پاکستان کی دیدہ دلیری کی دھوم مچے گی۔
اس وقت مجھے عمران خان صاحب کی وہ تقریر یاد آرہی ہے جو 23 جنوری 2022 کو ٹی وی پہ نشر ہوئی تھی جس میں انکا کہنا تھا کہ"اگر وہ اقتدار سے باہر نکل کر سڑکوں پر آ گئے تو وہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے ابھی تک تو میں چپ کر کے دفتر میں بیٹھا ہوتا ہوں، یا تماشے دیکھ رہا ہوتا ہوں، میں اگر سڑکوں پر نکل آیا تو آپ لوگوں کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہو گی، کیونکہ لوگ آپ کو پہچان چکے ہیں۔
عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ نہ صرف یہ مدت پوری کریں گے بلکہ آئندہ مدت بھی پوری کریں گے۔تو یہ دھمکی تو عمران خان پہلے دے چکے تھے کہ وہ جلد ہ یہ فارم میں آ جائیں گے اور اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا پردہ فاش کر دیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی بین الاقوامی دنیا کے سامنے دبنگ انٹری مغرب والوں کو ہضم نہیں ہو گی مگر ان پہ بھی ہیرو بننے کا بھوت سوار تھا قومی سرپرستی ان سے چھن چکی تھی لہذا حکومت بدر ہونا بھی انکا طے ہو چکا تھا مگر چونکہ وہ ایک سیاستدان بننے سے پہلے سپورٹس مین بھی رہ چکے ہیں اور ایک کھلاڑی کو یہ ہرگز زیبا نہیں کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جائے عمران بھی اسی روایت کے تحت آخری بال تک لڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔
مگر کل سے ایک اور دعویٰ بھی شوشل میڈیا کا طواف کر رہا ہے کہ ان کی جان کو اپوزیشن سے خطرہ لاحق ہے اور اس بیان میں مکمل وضاحت کے ساتھ انھوں نے چند لوگوں کے نام بھی لیے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ لوگ مجھے جان سے مار سکتے ہیں۔ اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ سازش ہوئی تو میر جعفر اور میر صادق اس کا حصہ ہوں گے اس کے علاوہ اس سازش کا ایک اور نام نواز شریف بھی ہے۔
حکومت کو اعتماد کا ووٹ ملے گا یا عدم اعتماد تحریک کامیاب ہو گی اپوزیشن کی جیت ہو گی یا حکومت برقرار رہے گی امریکہ کی خاموشی شرمندگی ہے یا آنے والے کسی طوفان کا اشارہ۔ ان سوالات کے جواب کے لیے اتوار تک کا انتظار لازمی ہے مگر عمران خان کی خود اعتمادی اور چہرے کی جارحانہ مسکراہٹ اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ جو انھوں نے کہا تھا کہ میں خطرناک ثابت ہوں گا اور خاموش نہیں رہوں گا تو بالآخر انھوں سے کہا پورا کیا اب اتوار کو وہ ایک نیا سرپرائز دینے کا عزم کر چکے ہیں بس دعا ہے کہ اللہ رب العزت ملک پاکستان اور قوم پہ آگے رحم فرمائے۔