Ab Haal Kis Se Kahein?
اب حال اپنا کس سے کہیں؟
گزشتہ روز میرا ایک مضمون "ڈیلی اردو کالم" ویب سائٹ پہ شائع ہوا۔ عنوان "کشمیر جل رہا ہے" یہ کالم میں نے ایک اور ایپ پہ بھی پوسٹ کیا اس ایپ پہ اردو (نثر و شاعری) کی ہر صنف پہ لکھ سکتے ہیں۔ یہ ایپلیکیشن بھی ہندوستان کی تیارکردہ ہے مگر اسے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ایپ پہ کالم پوسٹ کرتے وقت ایک لمحے کے لیے میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ کالم ہندوستانی بھی پڑھ سکتے ہیں مگر دوسرے لمحے یہ خیال ذہن سے ہوا ہو گیا میں نے سوچا جیسے ہم ہندی نہیں جانتے ویسے ہندو بھی اردو زبان سے کم ہی واقف ہوں گے مگر میرا اندازہ غلط نکلا کیونکہ ہندوستان میں اردو لکھنے پڑھنے والے کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں۔
کالم پوسٹ ہو گیا گھنٹے بعد مجھے اس کے جواب میں ایک پیغام وصول ہوا جو کہ ایک انڈین ہندو کا تھا جو کچھ یوں تھا۔۔
محترمہ ہانیہ ارمیا آپ کی اس تحریر کو میں ون سٹار دے رہا ہوں میں نے اس ایپ پہ جب بھی کوئی تحریر پڑھی ہے ہمیشہ ان تحاریر کو تھری یا فار سٹار ہی دیتا ہوں کیونکہ میں ان ہی لکھاریوں کو پڑھتا ہوں جو میرے پسندیدہ ہیں یہ حرکت میں پہلی بار کر رہا ہوں اور اپنی اس گھٹیا حرکت پہ میں معذرت خواہ ہوں آپ کی تحریر کو ون سٹار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے غلط لکھا ہے بلکہ آپ بہت اچھا لکھتی ہیں میں آپکے لکھے بہت سے افسانے اور مضامین پڑھ چکا ہے مگر اس گھٹیا عمل کی وجہ میری اپنے وطن"ہندوستان" سے محبت ہے جس طرح آپ نے یہ کالم اپنے وطن کی محبت میں سرشار ہو کر لکھا ہے ویسے ہی میں بھی اس تحریر کے ساتھ ناانصافی حب الوطنی کے جذبے میں ڈوب کر رہا ہوں۔
کشمیر بھارت کا حصہ تھا اور آگے بھی رہے گا جب لفظ پاکستان کا وجود بھی نہیں تھا اس سے بھی ہزاروں، لاکھوں سال پہلے کشمیر ہمارا حصہ تھا آج بھی ہے اور آگے بھی رہے گا ہم تو ابھی تک تقسیمِ ہند کے دکھ سے باہر نہیں نکلے کشمیر کو اب ہم نہیں دیں گے یہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
کیا آپ لوگ بنگال کی علیحدگی بھول گئے ہیں کیا اس کی علیحدگی آپ پاکستانیوں کو تکلیف نہیں دیتی (اس بات پہ میرا دل تڑپ اٹھا میں نے سوچا ہائے کسی کو کیا بتائیں کہ کیسا دکھ ہم جھیل گئے ہیں مگر خاموشی سے ہونٹ سئیے آگے بڑھتے جا رہے ہیں بالکل شاعر کی اس حالت کی طرح۔۔
ہنستے پھرتے ہیں سرِ بزم انَا کی خاطر۔۔
ورنہ حالات تو ایسے ہیں کہ رویا جائے
مزید اس نے کہا کہ ہاں میں مانتا ہوں کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے اور اللہ(آپ کے لئے میں یہاں لفظ بھگوان کی بجائے اللہ لکھ رہا ہوں) ظالموں کو نیست و نابود کرے اور مظلوموں پہ اپنا رحم کرے آمین۔ مگر یہ مت سوچنا کہ ہم کشمیر دے دیں گے یہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔
ایمان (ہندوستان)
میں نے مکمل پیغام پڑھا، کچھ سمجھ نہ آئی، کیا کرنا چاہیے؟ کچھ سوچ کر کالم ڈیلیٹ کر دیا مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زخم ہرا ہو گیا۔
ہم کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ ہندوستان میں تکبیر کا نعرہ اس لیے لگایا تھا کہ وہ جنگ دو قوموں اور دو مذاہب کی تھی مگر ایک ہی ملک کے مغرب اور مشرقی حصے کی جنگ کی بنیاد کیا تھی یہاں تو ایک قوم اور ایک مذہب تھا اپنے ہی اپنوں کے خلاف تلوار، بندوق لیے کھڑے ہو گئے یہاں تو کوئی بت پرست نہ تھا کوئی گاؤ ماتا کا جھگڑا نہ تھا کوئی گاندھی نہ تھا نہ ہی کوئی نہرو تھا اور نہ ہی ان ہندوؤں کی پشت پناہی کرنے والے انگریز تھے پھر کیا ہوا؟ اپنے ہی ملک کو ایک ہی قوم اور ایک ہی مذہب والوں نے بانٹ دیا، دو حصے کر دئیے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کانگرس 1885 میں تشکیل پائی مگر چونکہ وہ صرف ہندوؤں کی جماعت بنتی جا رہی تھی اس لیے مسلمانوں نے 1906 میں مسلم لیگ جماعت کی بنیاد رکھی تاکہ اس پلیٹ فارم سے مسلمان قوم کے لیے آواز اٹھائی جائے پھر ہم پڑھتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنی ہی قائم کردہ جماعت کو تقسیم کر لیا اور یہ جماعت دو دھڑوں میں بٹ گئی ایک کی سربراہی قائد اعظم محمد علی جناح کر رہے تھے اور دوسری کی سر شفیع۔ کیوں؟ کانگرس دو دھڑوں میں بٹ جاتی تو سمجھ آتا کہ ایک حصہ ہندوؤں کی سربراہی میں چلا گیا اور دوسرا مسلمان راہنماؤں کے پاس۔ مگر کانگریس کبھی دو حصے ہوئی ایسا کچھ بھی تاریخ کی کتابوں میں نہیں لکھا بلکہ وہ تو 1885 سے لے کر 1947 تک ایک ہی جماعت بنی رہی۔
مسلمانوں کی باہمی ناچاقی اور جھگڑوں نے پہلے مسلم لیگ کے دو حصے کیے اور اس کے بعد پاکستان کے۔ اور اب بھی ہم کراچی کا حال، بدحال ہی دیکھ رہے ہیں۔گاہے بگاہے وہاں سے بھی آواز اٹھتی ہے کہ ہمیں علیحدہ کر دیا جائے،ابھی کچھ دن پہلے میں کراچی سے متعلق ایک ویڈیو دیکھ رہی تھی جس میں ایک نظم پڑھی جا رہی تھی "کراچی ضروری ہے"۔
اور اس نظم میں کچھ مصرعے ایسے تھے جس میں کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ تھا میں حیران رہ گئی اور سوچنے لگی اگر پاکستان یوں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر کٹتا رہا آپسی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھتا رہا تو اس ملک میں کیا رہ جائے گا۔
بھارت پوری دنیا کے سامنے سینہ ٹھونک کے کہتا ہے کہ کشمیر ہم نہیں دیں گے حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں مگر بھارت کسی کی سننے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف ہم پاکستانی ہیں جو اپنوں کے ہاتھوں اپنا ہی حصہ کٹوا چکے ہیں۔