2020 Ta 2021 Taleem Ka Mustaqbil
2020 تا 2021 تعلیم کا مستقبل
آخرکار شفقت محمود کی شفقت کے عقیدت مندوں کی آنکھیں کھلیں۔ وہ لوگ جو آئے روز کرونا کے باعث تعلیمی ادارے بند کرنے کو بچوں کے لیے بہتر خیال کرتے تھے۔ وہ اب حکومت کی دسویں اور بارھویں امتحان کے نتیجے سے متعلق حکومت کی پالیسی پہ نظرثانی فرما لیں۔ پہلے تو آئے دن تعلیمی اداروں کی بندش، گزشتہ سال بنا امتحان لیے نہم، گیارھویں اور بارھویں جماعتوں کے طالبعلموں کی پروموشن، پھر اسمارٹ سلیبیس، اُس کے بعد پھر ادارے بند، سال 2021 میں صرف اختیاری مضامین لینے کا فیصلہ اور اب تقریباً پندرہ دن پہلے تمام بچوں کو رعایتی نمبر دے کر پاس کرنے کا لولی پاپ نوجوانوں کو تھمایا گیا۔
تفصیل کچھ یوں کہ بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس چودہ ستمبر میں دسویں اور بارہویں کلاس کے تمام طلبا و طالبات کو پاس کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ فیل ہونے والے طلبا و طالبات کو رعایتی 33 نمبرز دے کر پاس کرنے کی تجویز کو منظور کیا گیا کیونکہ کورونا کی خراب صورتحال کے باعث دوبارہ فوری امتحانات ممکن نہیں۔
مگر تعلیمی بورڈز کی پالیسی کے مطابق رعایتی نمبروں سے پاس شدہ طلباء و طالبات کو ای گریڈز ملیں گے اور اس حوالے سے تعلیمی بورڈز 33 فیصد نمبرز پر طلباء و طالبات کو ای گریڈ دیں گے۔ ای گریڈ ملنے پر طلبا وطالبات کو فرسٹ ایئر اور بی ایس آنرز میں داخلے نہیں ملیں گے۔ رعایتی نمبر سے پاس ہونیوالے طلباء کی اسناد پر رعایتی پاس لکھا جائے گا اور رعایتی پاس ہونیوالے لاکھوں طلبا کی اسناد کی کوئی وقعت نہیں ہو گی گریڈز کے تحت پاس طلباء و طالبات کیلئے یونیورسٹیز میں داخلوں کی کوئی نئی پالیسی تشکیل نہ ہوسکی اور یہ صورتحال تشویش کن ہے طالبعلموں کے دو سال بھی ضائع اور والدین کا ان سالوں کی تعلیم پہ لگایا سرمایہ بھی ضائع۔
لیکن شائد حکومت کو اس ضیاع سے کوئی سروکار نہیں جب ہی تو آئے دن ایسی پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں جن سے ملک کا تعلیمی معیار بلند ہونے کی بجائے مزید پستی کی جانب جا رہا ہے۔ گزشتہ آرٹیکلز میں، میں نے حکومت کی کچھ ناقصں تعلیمی حکمت عملیوں پہ لکھنے کی جسارت کی تھی۔ مگر حکام بالا کے کانوں تک عام شہری کی آواز پہنچ نہیں پاتی۔ مگر ہم بھی اقبال کے لکھے اس مصرعے "پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ" پہ عمل کیے جا رہے ہیں۔
رعایتی نمبر دے کر پاس کرنے کا فیصلہ دس دنوں میں ہی غلط ثابت ہو گیا کیونکہ اس طرح نہ تو طالبعلموں کو اچھے تعلیمی اداروں میں آگے داخلہ مل سکے گا اور نہ ہی نوکریاں۔ بباعث کرونا بےشک تمام کاروبارِ دنیا ایک وقت کے لیے رک گیا تھا۔ اور جہاں اس وبا نے معاشی حالات تہس نہس کیے وہیں تعلیم کے شعبے کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ پندرہ مارچ 2020 سے پندرہ ستمبر 2020 تک ادارے بند رہے اس کے بعد بمشکل ڈھائی ماہ ہی ادارے کھل پائے دسمبر میں پھر اداروں کی بندش کا اعلان ہو گیا سالانہ بورڈ امتحانات 2021 تک یہ ہی سلسلہ چلتا رہا ایک ماہ ادارے کھلتے پھر بند ہو جاتے۔
پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں ابھی بھی عوام کی اکثریت جدید ذریعہ تعلیم اور ٹیکنالوجی سے نابلد یے وہاں آن لائن تعلیم دینے کا فیصلہ آغاز سے ہی غلط راستے کی طرف پہلا قدم تھا۔ اور اس قدم کے بعد ضروری تھا کہ تعلیمی وزرا سنبھل جاتے مگر نہیں۔
آج جو ہم سیشن2019 تا 2021 جماعت دہم اور بارھویں کے امتحان دئیے بچوں کا مستقبل دیکھتے ہیں تو سوائے مایوسی کے آس پاس نظر کچھ نہیں آتا اور جب غلطی پوچھتے ہیں کہ جناب اس ناکامی کا الزام کس کے سر دھریں تو بالائی حصے سے ایک دبی سی سرگوشی کانوں تک پہنچتی یے سب بدبخت کرونا کی کارگزاری ہے ہمارا تو قصور کہیں نکلتا نہیں۔ اس جواب پہ ایک عام شہری کی حالت دیدنی ہے کہ اب جائیں تو آخر جائیں کہاں؟