11 September 2021
۱۱ ستمبر ۲۰۲۱
پاکستانیو! میں محمد علی جناح جسے تاریح نے قائد اعظم کہا میں وہی قائد اعظم جس نے اقبال کے خواب کو زندہ جاوید کیا۔ جس نے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا میں وہی جناح جس کی رات دن کی تگ و دو کا صلہ یہ ملک پاکستان ہے، مگر آج جب میں اپنی محنت کا نتیجہ دیکھتا ہوں تو افسوس کرتا ہوں دل خون کے آنسو روتا ہے میرے ہم قدم، میرے ساتھی مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ جناح صاحب! یہ ہے وہ ملک جس کے لیے ہم سب نے قربانیاں دیں تھیں۔ گاندھی اور نہرو مجھ پہ ہنستے ہیں کہتے ہیں اقبال کا خواب دیکھو اور جناح کا پاکستان دیکھو یہ وہ پاکستان ہے جس کے لیے جناح ہم سے لڑتا تھا انگریز میرا تمسخر اڑاتے ہیں کہ اے قائد اعظم محمد علی جناح ایک اللہ اور رسول کو ماننے والی قوم کی نسلوں کا حال تو دیکھو۔ ہندو اور انگریز آج مجھ پہ طنز کرتے ہیں۔
پاکستانیو! تم نے میرے ملک کی خوبصورت تصویر کو بگاڑ دیا۔ اللہ اور رسول کے حکموں سے منحرف ہو گئے۔ تو دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہو گئے۔ آج جب میں اس پاک سرزمین کا ایسا بدحال دیکھتا ہوں تو پچھتاتا ہوں۔ میں تمھیں کیوں یہ ملک سونپ گیا۔ تم تو اس پاک زمین کو سنبھالنے کے قابل ہی نہیں تھے میرے ملک کی پاک فضاؤں کو تم نے بدعنوانیوں اور ریشہ دوانیوں کی نظر کر دیا۔ پاک مٹی کو آلودہ کر دیا۔
اس ملک کا حال دیکھو اور خود انصاف کرو دشمن پہلے ہم سے جلتا تھا آج ہم پہ ہنستا ہے اس ملک کو اسلام کے نام کی خاطر آزاد کرایا۔ اسلامی اصول کہاں روپوش کر دئیے تم نے۔
اس ملک کو ہم نے آزاد کروایا تھا امن و محبت کا گہوارا بنانے کے لیے، اسلام کے لازوال قواعد کو نافذ کرنے کے لیے، اونچ نیچ کے فرقوں سے خود کو آزاد کرنے کے لیے، غیر معبود کے ماننے والوں کو شرمسار کرنے کے لیے، مغرب والوں پہ اسلام کی دھاک بٹھانے کے لیے، زندگیاں اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنے کے لیے۔ مگر تم نے اس خوبصورت منظر کو بدصورت بنا دیا۔ پاکستانیو تم نے میرے ملک کا کیا حال بنا دیا۔
آج یہ زمین مجھ سے سوال کرتی ہے کہ اے قائد علی جناح کیا تو اس قوم کے نوجوانوں کا حال دیکھ رہا ہے جو غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ جو تن آسان اور نفس کے غلام ہو گئے ہیں جن کی رغبت حق کی بجائے باطل پسندی ہو گئی ہے۔ جو اب نہ ہوش سے کام لیتے ہیں نہ جوش سے۔ وہ تو نفس کے پیالوں سے متوالے ہو چکے ہیں۔ یہ نوجوان، آرام پسند نوجوان محنت سے کتراتے ہیں اور کامیابی کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ تو حق اور باطل کا فرق تک بھول چکے ہیں۔
اے میرے جوانو! آج میں کیا کہوں تمھیں۔ تمھارے لیے تو پیغام تھا کام، کام اور بس کام۔ وہ پیغام تم نے کس کتاب میں رکھ کر گنوا دیا۔ میرے جوانو! اٹھو اس تن آسانی کے لبادے کو اتارو اور پھر سے اپنے اندر محمد بن قاسم کا جوش لے آؤ پھر سے سرسید اور اقبال بن جاؤ پھر سے محمد علی جوہر کے جیسے خود میں جوہر جگاؤ پھر سے حفیظ جالندھری کے جیسے اس ملک کے ترانے لکھو جو زبانِ زد و عام ہو جائیں اور پھر سے میرے ملک کا روشن نام ہوجائے۔
ہوش میں آؤ پاکستانیو! جاگو غفلت اور عیش کی نیند سے۔ اگر سرخرو ہونا چاہتے ہو تو اللہ اور رسول کی رسی کو پھر مضبوطی سے تھام لو آگے بڑھو قرآن کا دامن تھام لو دینِ اسلام کے اصولوں کو پھر سے راہِ حق مان لو اور خود میں وہی قوت، وہی ولولہ جگاؤ اور پھر سے اس صدی کے خالد بن ولید بن جاؤ۔ تاکہ یہ دنیا جان لے کہ اس ملک کی بنیادوں میں نوجوانوں کا لہو ہے یہ ملک وہ ملک ہے جس کی عمارت کی پہلی اینٹ کلمہ طیبہ ہے یہ ملک کوئی عام ملک نہیں پاکستانیو! یہ ریاست میرے نبی کی بشارت ہے اور اس ملک کو کوئی دشمن ہلا نہیں سکتا۔ جاگو میرے پاکستانیو جاگو اور پھر سے سبق پڑھو "ایمان"، "اتحاد" اور تنظیم کا۔