Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Pyara Kashmir

Pyara Kashmir

پیارا کشمیر

گرمی کے اس موسم میں ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی ٹھنڈے علاقے کی سیر کو نکلے تاکہ چند دن ہی سہی لیکن اس بے انتہا گرمی سے محفوظ تو رہ سکے۔ ویسے بھی سبزہ دیکھنے سے انسان ذہنی طور پر تروتازہ رہتا ہے لہذا سال میں ایک دفعہ پہاڑوں کا سفر لازمی کرنا چاہیے۔

پاکستان میں ایسے بہت سے علاقے پائے جاتے ہیں جن کی خوبصورتی کا انسان دیوانہ ہو جاتا ہے ایسے ہی علاقوں میں سے ایک جنت نظیر کشمیر بھی ہے۔ کشمیر کا جو حصہ ہمارے ہمسایوں کے قبضہ میں ہے وہ اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے مگر جو کشمیر کا حصہ ہمارے پاس ہے اس کی خوبصورتی کی بھی نظیر نہیں ملتی۔

جون کے پہلے ہفتے میں چند دوستوں کے ہمراہ کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ جون کا گرم ترین مہینہ ویسے بھی آپ کو ٹھنڈے علاقوں میں جانے پر مجبور کرتا ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم نے کہا تھا۔۔

شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے

ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے

کشمیر ایل او سی پر پہنچ کر ایک طرف بھارت کا اور ایک طرف پاکستان کا اور درمیان میں کشمیر کا جھنڈا دیکھ کر اس بات کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ پچھلے 77 سال سے ہم کشمیر کا فیصلہ نہ کر سکے جو حصہ ہمارے ہمسائیوں کے قبضہ میں آیا انہوں نے اپنے پاس رکھا اور جو ہمارے قبضہ میں آیا وہ ہماری زینت بن گیا مگر پچھلے 77 سال سے کشمیر کی غیور عوام اپنی آزادی کی منتظر ہے ہم نے اپنے مفادات کے لیے کشمیر کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا اس کی خوبصورتی بھی اسی لیے ماند پڑ گئی کہ ہم نے ان بیچاروں کو آزاد ہی نہیں کیا۔

ہم کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ کشمیری بھائی جو ہماری طرف آباد ہیں وہ آزاد ہیں جبکہ ہمارے ہمسایوں کی تحویل میں موجود کشمیریوں کو آزادی میسر نہیں جبکہ ہمارے ہمسائے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہماری طرف موجود کشمیری آزاد ہیں جبکہ دوسری طرف موجود کشمیری غلام لیکن میں ان دونوں موقفوں کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ دونوں کو ہی آزادی میسر نہیں کیونکہ کرنل فذافی نے کہا تھا کہ "انسان کی آزادی اس وقت تک بے کار ہے جب تک اس کی ضروریات دوسرے کی تحویل میں ہیں"۔

بہرحال ہم نے بہت سے دوستوں سے کشمیر کے ایک خوبصورت گاؤں اڑنگ کیل کا بہت سن رکھا تھا اس لیے ہماری خواہش تھی کہ ہم اس خوبصورت گاؤں اڑنگ کیل کا نظارہ اپنی انکھوں سے دیکھیں۔ اڑنگ کیل جانے کے لیے مظفرآباد اور شاردا سے ہوتے ہوئے سب سے پہلے کیل پہنچے۔ کیل سے ڈولی میں بٹھایا جاتا ہے جو کہ ہم نے سوشل میڈیا پہ دیکھ رکھا تھا کہ ڈولی میں بیٹھنے کے لیے لمبی لمبی لائنیں لگی ہوتی ہیں لیکن ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے پہنچنے پر لمبی لائن نہ ہونے کے برابر تھی اور ہم آسانی سے چند منٹ میں ہی ڈولی میں بیٹھ گئے۔

ڈولی میں مختصر سفر طے کرنے کے بعد اور اس میں سے اترنے کے بعد تقریبا 25 سے 30 منٹ کی ہائی کنگ کے بعد آپ اس خوبصورت گاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس سارے سفر کی وجہ سے آپ کافی تھک جاتے ہیں لیکن اڑنگ کیل کے خوبصورت مناظر دیکھنے کے بعد آپ کی ساری تھکان اتر جاتی ہے۔

ہم تقریبا عصر کے قریب وہاں پہنچے اور اس خوبصورت گاؤں کے خوبصورت مناظر دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔ اڑنگ کیل کی خوبصورتی واقع ہی حیرت انگیز تھی اور ہم یہ سارے خوبصورت مناظر دیکھنے کے بعد ایک تو رب تعالی کے شکر گزار تھے کہ ہمیں کتنے خوبصورت ملک میں پیدا کیا اور دوسرا اس حیرت میں مبتلا تھے کہ پاکستان میں ایسے خوبصورت مقامات بھی پائے جاتے ہیں جن کی خوبصورتی کو دیکھنے کے بعد انسان دنگ رہ جاتا ہے اور انہیں دیکھتا ہی چلا جاتا ہے۔

وہاں سب سے پہلے ہم نے اپنا سامان کمرے میں رکھا اور گھومنا پھرنا شروع کر دیا اور اس کی خوبصورتی میں کھو گئے۔ وہیں ہمیں ایک بابا جی ملے جنہوں نے اپنی عمر تقریبا 131 سال بتائی اور بتایا کہ وہ کئی نسلوں سے اسی جگہ پر آباد ہیں انہوں نے بتایا کہ یہاں جتنے بھی لوگ آباد ہیں سب ایک ہی نسل سے ہیں اور ہمارا تعلق مغل برادری سے ہے ہم کئی نسلوں سے یہاں پر آباد ہیں۔ یہ جگہ 2013 سے 14 میں مشہور ہوئی انہوں نے بتایا کہ ہمارا ہی ایک بچہ جو کہ پروفیسر ہوگیا اس نے اپنے موبائل سے اس جگہ کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا شروع کر دی اور آہستہ آہستہ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں پر لوگ آنا شروع ہو گئے اور اب تو پوری دنیا سے یہاں پر لوگ آتے ہیں۔

بابا جی نے مزید بتایا کہ پچھلے دنوں آفریقہ سے 25 لوگوں کا ایک پورا گروپ آیا ہوا تھا یہاں پہ خصوصی طور پر اس گاؤں کو دیکھنے کے لیے اس کے علاوہ پورے پاکستان سے سارا سال انہوں نے بتایا کہ یہاں پر لوگ اتے ہیں ہم نے بابا جی سے اس تندرستی کی وجہ پوچھی کہ آپ 131 سال کے ہونے کے باوجود اس قدر تندرست نظر آ رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ بس اللہ کا کرم ہے اور ساتھ موجود لوگوں نے بتایا کہ یہ بابا جی ہر جمعہ کے جمعہ اڑنگ کیل سے کیل کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور ہر جمعہ وہاں پر پڑھتے ہیں جس سے آپ اندازہ کریں کہ بابا جی کس قدر تندرست ہیں کیونکہ کیل سے ڈولی میں بیٹھنا اور پھر ڈولی سے آگے ہائی کنگ کرنا یہ اتنا مشکل کام تو نہیں لیکن اتنے عمر رسیدہ بندے کے لیے مشکل کا کام ضرور ہے۔

بابا جی نے مزید بتایا کہ ہم روزگار کے لیے یہاں سے دیگر علاقوں کی طرف روانہ ہوتے تھے میں بھی فوج میں تھا لیکن پچھلے 10-12 سال سے اللہ تعالی نے ہمارا رزق یہیں پر لکھ دیا ہے یہاں پر موجود ہماری تمام نسل جو آباد ہے ان میں سے کچھ نے یہاں پہ کھانے کے ہوٹل بنا لیے کچھ نے رہائش گاہیں بنا لیں اور یہاں ہی اللہ تعالی نے ہمیں روزی کے مواقع فراہم کیے ہوئے ہیں اور ہم اللہ تعالی کے بہت شکر گزار ہیں۔

یہاں سے آپ سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگائیں کہ ان پروفیسر صاحب نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے کی خوبصورتی لوگوں کو دکھائی اور اب پورے پاکستان سے لوگ اس خوبصورت گاؤں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں لہذا جتنے سوشل میڈیا کے منفی اثرات ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے فوائد بھی ہیں۔

رات کو ہم نے اڑنگ کیل میں ہی قیام کیا صبح اٹھتے ساتھ ہم نے اپنے گائیڈ کو ساتھ لیا اور اڑنگ کیل کے پورے خوبصورت گاؤں کا چکر لگایا اور پورے علاقے کی سیر کی۔ واپسی پر ہم جب نکل رہے تھے تو ہم آپس میں پنجابی میں باتیں کر رہے تھے جیسے کہ لڑکے آپس میں باتیں کرتے ہیں تو راستے میں بیٹھے ہوئے ایک ڈاکٹر صاحب جن کا تعلق سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن سے تھا اور سرگودھا ڈی ایچ کیو میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں انہوں نے ہمیں پنجابی میں آواز لگائی کہ (کیتھوں دے ہو مینوں تے سرگودھے دے لگدے ہو)۔

ہم یہ سنتے ہی رک گئے اور تعارف کروایا وہ ہمارے ساتھ بہت محبت کے ساتھ پیش آئے صرف اس وجہ سے کہ انہیں پتہ چل گیا کہ یہ بھی سرگودھا سے ہیں یہ ان کی اعلی ظرفی تھی پھر انہوں نے ہمیں اس علاقے کے متعلق سارا بتایا کہ ہم تو کافی دفعہ آ چکے ہیں آپ لوگ پہلی دفعہ آئے ہیں تو آپ کو اس جگہ پر بھی جانا چاہیے یہاں پہ قیام کرنا چاہیے ادھر جانا چاہیے یعنی انہوں نے مکمل طور پر اپنا سمجھ کے ہمیں گائیڈ کیا۔

میں نے ان کا ذکر آخر میں صرف اس لیے کیا کہ آپ اپنے علاقے میں ہوں یا علاقے سے باہر یا پھر ملک سے باہر جب آپ کسی انسان سے محبت و اخلاص سے پیش آتے ہیں تو آپ اس انسان کی میموری(ذہن) میں زندگی بھر کے لیے سیو(محفوظ) ہو جاتے ہیں لہذا جب بھی کسی سے ملیں محبت و اخلاص سے پیش آئیں انسان نے تو آپ کو کیا ہی دینا ہے مگر یقینا اس کا صلہ آپ کو اللہ تعالیٰ ضرور دے گا۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed