Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Insaf Ka Janaza

Insaf Ka Janaza

انصاف کا جنازہ

1963 میں جب ڈکٹیٹر ایوب خان پاکستان کے صدر تھے تو ذوالفقار علی بھٹو ان کے وزیر خارجہ اور مشتاق حسین جو تاریخ میں مولوی مشتاق حسین کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ اس وقت ان کے لاء سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ اسی دوران فنڈامینٹل رائٹس (بنیادی حقوق) کا ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جس پر وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور لاء سیکرٹری مولوی مشتاق حسین کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ جو اختلافات بعد میں جھگڑے سے بڑھتے ہوئے ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو گئے۔

اس دشمنی نے تب زور پکڑا جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر چھوڑ دیا اور ان کے خلاف احتجاج کرنا اور ریلیاں نکالنا شروع کر دیں۔ بھٹو کی ایوب خان کے خلاف بغاوت کا پہلا جواز یہ تھا کہ وہ تاشقند معاہدے سے ناخوش تھے جو صدر ایوب خان نے پاکستان اور بھارت کی جنگ کے بعد بھارت کے ساتھ کیا تھا۔

دوسری وجہ ایوب خان کی کچھ ایسی معاشی پالیسیاں تھی جن سے ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان سے دور ہوئے۔ لیکن سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو خود وزیراعظم بننا چاہتے تھے لہذا انھوں نے محسوس کیا کہ ایوب خان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا لہذا انھوں نے تاشقند معاہدے کو بنیاد بناتے ہوئے ایوب حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور ان کے خلاف ریلیاں نکالنی شروع کر دیں۔ انہی مظاہروں کی وجہ سے ایوب حکومت نے 1968 میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کروا لیا اور ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل شروع ہوگیا۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے وہی مولوی مشتاق حسین تھے جو اس وقت تک لاہور ہائی کورٹ کے جج بن چکے تھے۔

کچھ دیر یہ مقدمہ چلتا رہا لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی ایوب خان نے اپنے ڈھلتے ہوئے سورج کو مدنظر رکھتے ہوئے بھٹو کے خلاف اس سیاسی مقدمے کو ختم کرکے مسٹر بھٹو کو رہا کر دیا۔ لیکن بھٹو صاحب جب باہر آئے تو وہ مختلف موقعوں پر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ مجھے ایوب خان کی حکومت نے تو چھوڑ دیا لیکن مولوی مشتاق نے ابھی تک نہیں چھوڑا یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ مولوی مشتاق کے بس میں ہوتا تو وہ مجھے کبھی رہا نا ہونے دیتے۔ یہ کیس تو ختم ہوگیا لیکن بھٹو اور مولوی مشتاق حسین کی پرانی دشمنی دوبارہ سے تازی ہوگئی۔ لیکن تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ کچھ عرصے بعد بھٹو کو وہ حساب برابر کرنے کا موقع مل گیا۔

ہوا یوں کہ 1976 میں جب بھٹو اقتدار میں تھے تو مولوی مشتاق حسین اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج تھے اور سینیورٹی کے حساب سے انہیں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بننا تھا۔ لیکن بھٹو صاحب نے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے ان سے آٹھ سال جونیئر جج جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بنا دیا ٹھیک اسی طرح جس طرح کچھ دن پہلے جسٹس یحیی آفریدی کو ان سے دو سینیئر ججز پر ترجیح دے کر چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا گیا۔

مولوی مشتاق حسین کو اس عمل سے بہت صدمہ پہنچا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مولوی مشتاق حسین کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ کی پرموشن کو ریجیکٹ کر چکے تھے کیونکہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے کے خواہش مند تھے اتنے خواہش مند کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی پرموشن کو بھی ریجیکٹ کر دیا۔ یہ تمام باتیں سینیئر قانون دان حامد خان نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کانسٹیٹیوشن اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان میں درج کی ہیں جو کہ آجکل میرے زیر مطالعہ ہے۔

ان اقدامات کے بعد ذولفقار علی بھٹو اور مولوی مشتاق حسین کی دشمنی اور زیادہ مضبوط ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد ہی جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا اور جنرل ضیاء الحق مسٹر بھٹو اور مولوی صاحب کی اس دشمنی سے باخوبی وقف تھے لہذا انہوں نے مولوی مشتاق حسین کو قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بنا دیا۔

اب جسٹس مولوی مشتاق حسین بھی بخوبی جانتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے انہیں قائم مقام چیف جسٹس کس لیے لگایا ہے۔ مولوی صاحب کی خواہش تو پوری ہو چکی تھی اب باری تھی جنرل ضیاء کی خواہش کی تکمیل کی۔ لہذا کچھ دن بعد ہی مسٹر بھٹو کے خلاف وہی مقدمہ دوبارہ سے شروع کر دیا گیا جو کچھ سال پہلے ختم ہو چکا تھا اور وہ تھا نواب احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ جو کہ دوبارہ سے لاہور ہائیکورٹ میں لگا دیا گیا۔

یہ مقدمہ 1974 میں پہلی دفعہ درج ہوا تھا جس کے بعد پیپلز پارٹی کے وزیراعلی حنیف رامے نے اس کیس کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا اور اور جسٹس شفیع الرحمان کی زیر سربراہی ایک جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا جس میں احمد رضا قصوری پیش ہوئے اور انہوں نے بھٹو پر الزام لگانے کی بجائے کہا کہ قصور میں ان کے سیاسی مخالفین اور قادیانی گروہ جن پر وہ اکثر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بظاہر ان کا کام لگتا ہے۔

اس جوڈیشل کمیشن نے1974 میں اپنی رپورٹ وزیر اعلی کو پیش کی لیکن اسے پبلک نہیں کیا گیا اور اکتوبر 1975 میں اس کیس کو داخل دفتر کر دیا گیا یعنی یہ کیس ختم ہوگیا کہا جاتا ہے کہ اس کیس سے پہلے اور اس کیس کے دوران بھی احمد رضا قصوری یہ بات سمجھتے اور کہتے تھے کہ یہ سب ذولفقار علی بھٹو نے کروایا ہے۔ لیکن اس کیس کے ختم ہونے کے بعد 1976 میں احمد رضا قصوری نے وزیراعظم بھٹو سے رابطے بحال کرنے کی کوشش شروع کر دی لیکن بھٹو ان کے اپنے خلاف بیانات کی وجہ سے ان سے ناراض تھے۔

جب نواب احمد رضا قصوری کو وزیراعظم کی ناراضگی کا علم ہوا تو انہوں نے وزیراعظم کو خط لکھنا شروع کر دیے اور معافی تلافی کرنے لگے بالاخر ذولفقار علی بھٹو نے نواب احمد رضا قصوری کو پارٹی میں واپس لینے پر آمادگی کا اظہار کر دیا لہذا چھ اپریل 1976 کو نواب احمد رضا قصوری نے بیگم نصرت بھٹو کو ایک دعوت نامہ بھیجا جس میں ان کی پارٹی میں دوبارہ شمولیت پر ان کے ہاں لاہور آنے کا کہا گیا۔ جس پر سات اپریل 1976 کو ماڈل ٹاؤن میں ایک پریس کانفرنس میں بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ نواب احمد رضا قصوری اور ان کی والدہ نے شرکت کی اور ان کی والدہ نے پریس کانفرنس میں سب کے سامنے کہا کہ میں بھٹو پر اپنے سارے بیٹے قربان کرنے کو تیار ہوں۔

یہ الفاظ اسی نواب محمد احمد قصوری کی بیگم کے تھے جس کے قتل کا الزام کچھ عرصہ پہلے نواب احمد رضا قصوری بھٹو پر لگا چکے تھے اور اسمبلی میں کھڑے ہو کر وہ یہ کہہ چکے تھے کہ بھٹو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ لیکن کیونکہ وہ بھٹو کے ساتھ اپنا سیاسی فائدہ دیکھتے تھے اس لیے انہوں نے بھٹو کو دوبارہ جوائن کر لیا اور وہ 1977 کے الیکشن میں بھٹو سے قصور شہر سے ٹکٹ لینے کے بھی خواہش مند تھے۔ لیکن بھٹو نے ان کی یہ خواہش پوری نہ کی اور انہیں قصور شہر سے ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد نواب احمد رضا قصوری دوبارہ سے بھٹو کے خلاف ہو گئے۔

وہ کچھ عرصہ خاموش رہے لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لاء لگایا تو اس کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد نواب احمد رضا قصوری دوبارہ عدالت چلے گئے اور اپنے والد کے قتل کا مقدمہ دوبارہ سے کھلوانے کا مطالبہ کر دیا۔ جنرل ضیا جو پہلے سے بھٹو کی کسی کمزوری کی تلاش میں بیٹھے تھے انہیں یہ کمزوری مل گئی۔

مسٹر بھٹو کو پانچ جولائی 1977 کو مارشل لاء لگنے کے بعد مری ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا تھا لیکن انہیں 28 جولائی کو رہا کر دیا گیا کیونکہ جنرل ضیا یہ ظاہر کروانا چاہتے تھے کہ مارشل لاء حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کروانا چاہتی۔ بھٹو رہائی کے بعد کراچی چلے گئے اور 70 کلفٹن میں اپنی رہائش گاہ پر رہنے لگے تین ستمبر کے دن انہیں نواب قصوری قتل کیس میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور حکومت نے یہ بیان جاری کیا کہ بھٹو کو پولیس نے گرفتار کیا ہے مارشل لاء کا اس سے کوئی تعلق نہیں جبکہ بات بالکل اس کے برعکس تھی۔

لاہور ہائی کورٹ میں یہ بے جان مقدمہ چند دن بھی نہ ٹھہر سکا اور 13 ستمبر 1977 کو جسٹس کے ایم صمدانی نے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر سابق وزیراعظم کو رہا کر دیا لیکن یہ رہائی جنرل ضیاء کو کسی صورت بھی قابل قبول نہ تھی لہذا ان کے کہنے پر یہ کیس قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مولوی مشتاق حسین نے فوراََ اپنے پاس لے لیا اور اس کیس کی سماعت کیلئے پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ جس میں مولوی صاحب کی اپنی اکثریت تھی۔ لہذا وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کر سکتے تھے۔

13 ستمبر کو بھٹو کو رہا تو کر دیا گیا لیکن بھٹو کو یہ خدشہ تھا کہ انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا اور ان کے کسی ہمدرد نے بھی ان تک یہ اطلاع پہنچا دی کہ آپ کو جلد دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا لہذا 17 ستمبر کو ہی بھٹو کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور 11 اکتوبر 1977 کو بھٹو کا اوپن ٹرائل شروع ہوگیا اس اوپن ٹرائل میں عدالت میں کوئی بھی آ سکتا تھا لیکن جنوری 1978 تک اس کیس کو خفیہ کر دیا گیا اور بند کمروں میں اس کی سماعت ہونے لگی۔ اس مقدمے میں کیونکہ بھٹو پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس) کو حکم دیا کہ وہ نواب احمد رضا قصوری کو قتل کرے جس کے نتیجے میں ان پر حملہ کیا گیا اور اس حملے میں احمد رضا کی بجائے ان کے والد خان قصوری ہلاک ہو گئے۔

مورخین اور ماہرین کے مطابق اس کیس میں اتنے تضادات تھے کہ اگر کسی ایک تضاد پر بھی غور کر لیا جاتا تو بھٹو با عزت بری ہو جاتے لیکن عدالت اور یہ بینچ ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتا چلا گیا جو بھٹو کے حق میں تھی۔ بے نظیر بھٹو تو اپنی کتاب میں یہاں تک لکھتی ہیں کہ ایک دن قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کے وکیل ڈی ایم اعوان کو اپنے چیمبر میں بلایا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہیں اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں کیوں مارشل لاء کے خلاف جا کر اپنا مسقبل خراب کر رہے ہو۔ ڈی ایم اعوان نے ان کی بات نا مانی جس کے بعد جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ان سے بدلہ لینے کا سوچ لیا اور ان کے دیگر کیسوں میں بھی ان کے خلاف فیصلے لکھنے شروع کر دیے جس کے بعد ڈی ایم اعوان نے اپنے موکلین سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بہتر ہے آپ میرے علاوہ کوئی اور وکیل کر لیں۔

اس بینچ کی جانبدارانہ رویے کی وجہ سے بھٹو کے وکلا نے اپیل دائر کی کہ اس کیس کے لیے کوئی نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔ لیکن ان کی یہ بات نہ مانی گئی جس کے بعد 9 جنوری 1978 کو بھٹو نے اس عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا لیکن یہ کیس اسی طرح چلتا رہا اور بالاخر 18 مارچ 1978 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جس دن پاکستان کے سابق وزیراعظم کو ایک بے جان مقدمے میں ایک جانبدارانہ بینچ کی طرف سے پھانسی کی سزا سنا دی گئی اور ان کے ساتھ مقدمے میں موجود ایف ایس ایف کے چار اور افسران کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔

بھٹو نے جیل میں بیٹھ کر رومرز اینڈ ریلٹی کے نام سے ایک کتاب لکھی اس میں بھٹو لکھتے ہیں کہ جسٹس مولوی مشتاق حسین نے 1975 میں ایک دن مصطفی کھر کو کہا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو سے جان چھڑانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے سر میں گولی مار دی جائے۔ مولوی مشتاق حسین بھٹو کے سر میں گولی تو نہ مار سکے لیکن انہیں پھانسی کی سزا ضرور سنا دی۔ مئی 1978 کو بھٹو کے وکلاء نے اس مقدمے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

بھٹو کی بد قسمتی کہ اب سپریم کورٹ میں بھی چیف جسٹس انوار الحق تھے اور انوار الحق کا بھی بھٹو کے ساتھ وہی معاملہ تھا جو مولوی مشتاق کا تھا کیونکہ بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے اس وقت کے چیف جسٹس محمد یعقوب علی خان کو ایکسٹینشن دے دی تھی اور جسٹس محمد یعقوب علی خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس آف پاکستان بننا تھا جس کے بعد وہ چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے رہ گئے اس بات کا بھی جنرل ضیاء الحق کو بخوبی علم تھا لہذا انہوں نےجسٹس یعقوب کو جبری طور پر ریٹائر کر دیا اور جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا۔ اس کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نو رکنی بینچ تشکیل دیا۔

جسٹس انوار الحق کو جب محسوس ہوا کہ اس بینچ میں موجود دو ججز بھٹو کے حق میں فیصلہ لکھ سکتے ہیں تو انہیں بینچ سے نکال دیا اب باقی ساتھ ججز نے اس کیس کی سماعت کرنا تھی۔ چھ فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے بھی وہی فیصلہ سنایا جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی اور انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی سزا کو برقرار رکھا۔ یہ فیصلہ چار تین کی بنیاد پر دیا گیا 13 فروری کو دوبارہ اپیل کی گئی اسے بھی 24 مارچ کو مسترد کر دیا گیا۔ جس کے بعد ایک ہی آپشن موجود تھا اور وہ تھا کہ صدر پاکستان رحم کی اپیل میں پھانسی کی سزا کو معطل کر دیں۔ جبکہ جنرل ضیاء الحق اس وقت تک صدر پاکستان بن چکے تھے۔ بھٹو اس بات پر بضد تھے کہ ان کی فیملی یا ان کی طرف سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرے گا۔ لیکن بھٹو کے کچھ چاہنے والوں نے رحم کی اپیل کی جسے صدر ضیاء الحق نے مسترد کر دیا اور بالاخر چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ بھٹو کے آخری الفاظ تھے "فنش اٹ"۔

پاکستانی مشہور زمانہ اداکار شاہد جو کہ دنیا نیوز کے اینکر کامران شاہد کے والد بھی ہیں وہ اپنے بیٹے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ بھٹو کو بہت پسند کرتے تھے اور مولوی مشتاق حسین کیونکہ ان کے رشتہ دار تھے لہذا جب انہیں پتہ چلا کہ صبح بھٹو کو مولوی صاحب پھانسی کی سزا سنانے والے ہیں تو رات کو وہ ان کے پاس پہنچے اور رات دو بجے ان کو نیند سے جگایا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ بتائیے کس لیے اتنی رات کو آنا ہوا تو میں نے انہیں سارا قصہ سنایا کہ عوام ان سے بہت محبت کرتی ہے اور وہ عوام کے دلوں میں بستے ہیں لہذا آپ مہربانی کریں یہ پھانسی وغیرہ کا معاملہ ختم کریں اور بے شک عمر قید سنا دیں جس پر مولوی مشتاق حسین غصے میں آ گئے اور انہیں گھر سے جانے کے لیے کہہ دیا۔ جس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے نکلتے وقت کہا کہ مولوی صاحب پھر مرنا تو سب کو ہی ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ کیونکہ مولوی مشتاق حسین صاحب ہمارے رشتہ دار تھے تو ان کی وفات پر میں ان کے جنازے میں شرکت کے لیے گیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ سمیت بہت سے جج صاحبان اور بڑے بڑے وکلاء جنازے میں شریک ہوئے۔ جنازے پر اچانک شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا اور مولوی مشتاق حسین کا جنازہ بہت دیر تک اکیلا پڑا رہا کوئی نزدیک تک نا گیا اور شہد کی مکھیاں بہت دیر تک جنازے پر قابض رہیں۔ اداکار شاہد کہتے ہیں کہ میں نے یہ منظر دیکھ کر اس پر ایک جملہ کہا کہ دیکھیں یہ انصاف کا جنازہ پڑا ہے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib