1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Hum Itne Taaqatwar Shehri Kab Banege?

Hum Itne Taaqatwar Shehri Kab Banege?

ہم اتنے طاقتور شہری کب بنیں گے؟

ترقی پسند ملکوں میں ہمیشہ ہی ہر شہری کے حقوق کا تحفظ سب سے پہلے یقینی بنایا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ حقوق اخلاقی اقدار میں شامل ہوتے ہیں مگر کیونکہ ہم اسے اپنے اردگرد دیکھ نہیں پاتے لہذا ہمیں یہ چیزیں بڑی غیر معمولی لگتی ہیں اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے؟

مغرب اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہے ان کی اخلاقی اقدار تک پہچنا ہمارا خواب ہی رہے گا۔ کیونکہ انہیں شروع سے ہی ان چیزوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے جس کا ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں۔

اگلے دن میری لندن میں مقیم ایک دوست سے بات ہو رہی تھی اور موضوع زیر بحث یہی تھا جس کا شروع میں میں نے ذکر کیا ویسے تو گپ شپ کے لیے رابطہ ہوا لیکن باتوں سے بات نکلتی ہماری اور مغرب کی اخلاقی اقدار تک پہنچ گئی۔

دوست نے مجھے واقع سنایا کہ کافی پہلے کی بات ہے یہاں ائیرپورٹ کے قریب ہی ایک بوڑھی عورت مقیم تھی اس نے حکومت سے شکایت کی کہ رات کو یہاں جہازوں کی لینڈنگ یا اُڑان روکی جائے کیونکہ اس سے میری نیند میں خلل پڑتا ہے انتظامیہ نے فوراً ایکشن لیا اور اس بوڑھی عورت نے اپنی نیند کا جو مخصوص وقت بتایا اس میں جہازؤں کی وہاں لینڈنگ اور اُڑان پر پابندی لگا دی اور وہ بتا رہا تھا آج تک وہ معمول قائم ہے۔ اب ان کے لیے تو یہ معمولی واقعہ ہے کیونکہ ہر شہری کے حقوق کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہے۔

لیکن ہمارے لیے تو یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ کیونکہ ہمیں ان واقعات کی عادت کہاں اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ کہ حکومت اس بوڑھی عورت کو کہیں اور مکان لے کر بھی تو دے سکتی تھی ضرور انہوں نے جہازوں کی لینڈنگ یا اُڑان کو رکوانا تھا؟

یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں لازمی طور پر پیدا ہوا ہوگا کیونکہ ہمارے اندر پاکستانی اور ایشین جینز پائے جاتے ہیں بد قسمتی سے کوئی میرے سے اتفاق کرے نہ کرے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہم پاکستانی ہوں یا ایشینز ہوں ہمارے اندر یہ جینز پائے جاتے ہیں کہ ہم منفی پہلو کو سب سے پہلے زیر بحث لاتے ہیں اپنے جینز کے منافی آپ اس منفی پہلو کو چھوڑیں کہ حکومت اس بوڑھی عورت کو کہیں اور مکان لے کر دے سکتی تھی یا نہیں لے کر دے سکتی تھی آپ صرف اس پہلو پر غور کریں کہ وہاں ہر شہری کو کس قدر آزادی حاصل ہے اور کس قدر اس کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔

سوچیں اگر یہ پاکستان یا ایشیا کا کوئی دوسرا ملک ہوتا تو کیا اس عورت کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا جاتا؟ یقینا جواب ہوگا نہیں بالکل نہیں بلکہ یقینی طور پر اس عورت کا گھر مسمار کر دیا جاتا اور وہ دربدر ہو کر رہ جاتی۔ یہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن ایسے بہت سے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مغرب کا نظام ہم سے بہت بہتر ہے اخلاقی طور پر معاشی طور پر۔

یہاں پر شہری حقوق تو کیا بنیادی انسانی حقوق سے لوگ محروم ہیں پچھلے تقریبا دو سال سے ایک مخصوص جماعت کے مرد و خواتین کے ساتھ جو رویہ رکھا جا رہا ہے اس کی کوئی بھی مؤذب معاشرہ اجازت دیتا ہے۔

اس کا جواب بھی یقینا نہیں میں ہوگا کوئی بھی معزز معاشرہ اس عمل کی اجازت نہیں دیتا اور بدقسمتی سے پچھلے ڈیڑھ دو سال سے اس ملک میں آئین و قانون کی جس قدر دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اس کی مثال کہی ملتی ہے مگر لوگ بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ اس ملک میں جو طاقتور حلقے چاہیں گے وہی ہوگا یہ کس قدر بدقسمتی ہے یہ الفاظ کہ جو طاقتور حلقے چاہیں گے وہی ہوگا ہمارے نظام کے منہ پر کھلا تماچہ ہے اور یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی میں تو پہنچ گئے ہیں مگر اب بھی صدیوں پرانے بادشاہی نظام کے زیر عتاب ہیں۔

دوست مجھے مزید بتا رہا تھا کہ یہاں پر وقت کی اتنی قدر کی جاتی ہے کہ جس کے بارے میں ہم پاکستانی اور ایشین صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔ وہ مزید بتا رہا تھا کہ یہاں پر پولیس کا نظام اس قدر بہتر ہے کہ پاکستان میں تو ہم پولیس کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں پر اس کے برعکس ہم پولیس کو دیکھ کر خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور انہیں دیکھ کر کوئی ڈر والی فیلنگ نہیں آتی بلکہ یہی لگتا ہے کہ جس طرح ہم اپنے کام کے لیے اپنی ڈیوٹی کے لیے نکلے ہوئے ہیں یہ بھی اپنے کام اور اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور عدالتی نظام اس قدر مضبوط ہے کہ اگر کوئی پولیس والا کسی شہری کو پکڑ کر عدالت میں پیش کرتا ہے اور وہ اس کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا۔

یہ نہیں کہ صرف اس شہری کو باعزت بری کیا جاتا ہے بلکہ پولیس کو حکم دیا جاتا ہے کہ جو آپ نے اس کا وقت ضائع کیا ہے اس کو اس کے بدلے میں اس کی مراعات دی جائیں یعنی جتنا وقت آپ نے اس کا ضائع کیا ہے اس وقت میں جتنا وہ کما سکتا تھا اتنے پیسے اسے ادا کیے جائیں آپ اندازہ کریں کہ وہاں کا نظام کس قدر مضبوط ہے یہاں پر تو کوئی اس قسم کے نظام کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

یہاں تو پولیس چاہے کوئی ثبوت ہو یا نہ ہو شواہد دیکھے بغیر آدمی کو اٹھا کر جیل میں پھینکتی ہے اور پھر وہ بیچارہ بے شک اگلے کئی ماہ اور کئی سالوں تک جیل میں گلتا سڑتا رہے۔ ہمارا نظام اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ یہ عام آدمی کو تو کیا خود انصاف فراہم کرنے والے ججوں کو انصاف نہیں دے سکتا وہ خود چیخ چلا رہے ہیں کہ ہم اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں ہمیں اس طرح کے تھریٹس آ رہے ہیں ہمیں دھمکی شدہ خط مل رہے ہیں لیکن یہ نظام خاموش ہے۔

پتہ نہیں یہ بوسیدہ نظام کب خاموشی توڑے گا اور کب اس ملک میں اصل قانون کی حکمرانی ہوگی اور کب اس ملک میں آئین کی توقیر بحال ہوگی لیکن یہ سب تو اب دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo