1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Haqeeqat Tasleem Karen

Haqeeqat Tasleem Karen

حقیقت تسلیم کریں

پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ جسے بھی مقتدر حلقوں یعنی اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوتی ہے، انہی کے حصے میں اقتدار آتا ہے۔ سیاستدان تو شروع سے ہی اس فارمولے کو سمجھتے ہیں اسی لیے جتنا ہو سکے ان کے قریب ہونے کی جہدوجہد میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ لیکن اس بار تاریخ بدلی بدلی نظر آئی ہے تاریخ میں پہلی بار اتنا اینٹی اسٹبلشمنٹ ووٹ پڑا ہے کہ مقتدر حلقوں سمیت سب پریشان ہیں کہ یہ سب کیسے ہوگیا۔

اب اسے شعور کا نام دیں یا پھر ظلم کے خلاف بغاوت کہیں کچھ بھی کہہ لیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ بیانیہ بنانے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں اس شخص نے جیل میں بیٹھ کر اتنا ووٹ لیا ہے کہ شاید ہی پاکستانی تاریخ میں اتنا ووٹ کسی لیڈر کے بیانیے کو پڑا ہو۔ بیانیہ بنانے میں عمران خان کا کوئی مقابلہ نہیں اس بات کا اعتراف تو عمران خان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔

دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کی مکمل حمایت کے باوجود ن لیگ کو ایک قسم کی عبرت ناک شکست ہوئی ان کو ہر سہولت فراہم کی گئی سرکاری مشینری ان کے حق میں مخالفین جیلوں میں یا روپوش لیکن پھر بھی فاتح نا بن سکے میری نظر میں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس بیانیہ کوئی نہیں تھا یہ صرف اسٹبلشمنٹ کی حمایت کو اپنی فتح سمجھ کر بیٹھے تھے، لیکن عوام نے ان کو دن میں تارے دیکھا دیے۔

ماہرین کے مطابق اگر میاں صاحب پنجاب اور وفاق میں حکومت بنانے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھتے تو ان کی سیاست بچ جاتی مگر یہ بات بھی درست ہے کہ طاقت ملتی دیکھ کر بڑے بڑوں کے ایمان ڈول جاتے ہیں۔

ہر طرف سے آواز آ رہی ہے کہ عمران خان اخلاق اور اصولی طور پر جیت چکا ہے۔ بڑے بڑے سیاستداں اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ واقعہ ہی میں قوم نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے اور حکومت کا حق اسی کا بنتا تھا لیکن کیا کہا جا سکتا ہے جس طرف مقتدر حلقے اسی طرف کی حکومت بننا بد قسمتی سے اس ملک کی روایت ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کے پاس بھی فارم 45 تھا لیکن ایوب خان کے پاس فارم 47 تھا لہذٰا فارم 47 والا ہمیشہ جیت جاتا ہے۔

محمود خان اچکزئی نے پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بھلا ہو لاکھوں پاکستانیوں کا جنہوں نے آپ کے اور جرنیلوں کے بنے بنائے کھیل کو پلٹ دیا مزید کہا کہ اگر پاکستان کی عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے تو اسے بدلنا پاکستان سے غداری ہے پاکستان کی عوام سے غداری ہے۔

اور تو اور ہر حکومت کا حصہ رہنے والے اور پی ڈی ایم کے سابق سربراہ جناب مولانا فضل الرحمٰن صاحب بھی اس الیکشن کو ماننے سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں یہ پچھلے الیکشن سے بھی بدترین الیکشن تھا۔نواز لیگ کے اپنے لیڈرز سینٹر جاوید عباسی، جاوید لطیف اور پی پی پی کے ندیم افضل چن خود اس الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھا چکے ہیں۔

مصطفی نواز کھوکھر اور مفتاح اسمعیل تو یہاں تک کہہ چکے کہ فارم 45 کے مطابق میاں صاحب اپنی لاہور والی سیٹ بھی ہار چکے عون چوہدری ہار چکے شہر اقتدار کی تینوں سیٹیں دو لیگی (طارق فضل چوہدری، انجم عقیل) اور ن کے حمایت یافتہ خرم نواز بھی اپنی سیٹیں ہار چکے جبکہ راولپنڈی ڈویژن کی تو ساری سیٹیں ہی قابل اعتراض ہیں۔

اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس معاشی استحکام کی بات کی جا رہی ہے اس الیکشن سے تو سیاسی استحکام ممکن نہیں معاشی تو دور کی بات ہے بلکہ جے یو آئی ف کے حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ یہ الیکشن تو استحکام پارٹی کو استحکام نہیں بخش سکا پاکستان کو کیا استحکام دے گا۔

ویسے تو پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن پر ہی سوال اٹھتے ہیں، لیکن اس دفعہ ہر جماعت ہی ان انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھا رہی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم 76 سالوں میں اس قابل بھی نہیں ہوسکے کہ انتخابات صحیح طریقے سے کروا سکیں؟ اور اگر الیکشن سے پہلے ہی حکومت کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو غریب عوام کے اربوں روپے ضائع کرنے کا کیا مقصد؟

کچھ دن قبل ایک سیمنار میں سینئر سیاستدان افراسیاب خٹک نے بہت ہی بہترین بات کی کہ جب تک ہم سیاستدان جی ایچ کیو کی بجائے عوام سے ووٹ نہیں مانگیں گے اور حقیقی طور پر عوام کے ووٹ سے اقتدار میں نہیں آئیں گے اس وقت تک اس ملک میں جمہوریت کا تصور کرنا ہی فضول ہے۔

لہذا اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا جو حقیقت عوام کے ووٹوں سے ظاہر ہو۔

آخر میں موجودہ صورتحال پر پیش خدمت ہے میری ایک غزل۔۔

وہ تصور جو سب پے بھاری تھا
جان و دل سب جس پے واری تھا

جس کے ہونے سے باغ باغ تھا دل
جس کا ہونا بھی اک خماری تھا

وہ جو بولے تو پھول جھڑتے تھے
اس کا لہجہ بہت معیاری تھا

وہ جو دیانت کی بات کرتا ہے
وہ بھی تصویر کا پجاری تھا

ان کو کہتے ہیں تم مقرر ہو
بات کرنے سے جو بھی عاری تھا

لوگ جھوٹوں کا قرب چاہتے ہیں
سچ کو لکھنا تو اک بیماری تھا

میں تو سمجھا تھا آپ جانتے ہیں
عشق کا مطلب یہاں خواری تھا

وہ جو چُپ چاپ قید میں تھا کھڑا
اس کو احساس وفاداری تھا

مسئلہ درپیش روزگار کا ہے
اُس کو چھوڑو وہ کاروباری تھا

میں بھی جمہور کا محافظ ہوں
حافظ جی کا خطاب جاری تھا

یوں علامہ کو پڑھ کے لگتا ہے
ان کا مقصد میری بیداری تھا

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Pensionary Fawaid Ke Baray Mein Peshawar High Court Ka Faisla

By Rehmat Aziz Khan