Aeen Aur Mufadat
آئین اور مفادات
اس ملک کی عدالتوں سے انصاف ملتا ہے یا نہیں ملتا یہ ایک علیحدہ گفتگو ہے لیکن کیا آئین کی تشریح اپنے مفادات کے مطابق کرنا درست عمل ہے یا آئین کے ساتھ دھوکا ہے۔ اس ملک میں یہ شروع سے ہی ہوتا آیا ہے اور پاکستانی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب فیصلہ آپ کی منشا کے مطابق نہ آئے تو سپریم کورٹ پر حملہ کر دینا بھی بری بات نہیں سمجھا جاتا۔
ہر فریق یہی چاہتا ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہی ہو لیکن فیصلہ تو آئین اور قانون کے مطابق ہونا ہوتا ہے اور آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ نوے دنوں میں انتخاب کا انعقاد کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں حکومت اس فیصلے کو جانبدار قرار دے کر ججز کو متنازع بنا رہی ہے۔ یہ ویسے ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی مرضی کے جج کی خواہش کرتے ہیں جسے وہ فون کرکے فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق لکھوانے کا حکم دے سکیں۔
اور سب سے بڑی بات ایک غیر یقینی حکومت کا تو سب سے بڑا حدف ہی نئے انتخاب ہوتے ہیں اور خاص کر جب یہی لوگ اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے تو عمران خان کو اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کروانے کا کہا کرتے تھے اب جب کہ ساری پی ڈی ایم کو نظر آ رہا ہے کہ عمران خان تو ہم سب پے بھاری ہے اور ہر سروے کے مطابق وہ دو تہائی سے بھی زیادہ ووٹ لیتا نظر آ رہا ہے تو اب سب انتخاب سے بھاگ رہے ہیں اور اتنے خوفزدہ ہیں کہ آئین کو بھی غلط ثابت کرنے کو تیار ہیں۔
لیکن مجھے سب سے زیادہ افسوس اس تقسیم کا ہے جو ہر ادارے میں کہیں نہ کہیں سر اٹھا رہی ہے یہ تفریق اس ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اس تقسیم کو کم کرنا ہوگا مگر سب اپنے مفادات کی خاطر اس تقسیم کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ اسی تفریق کی وجہ سے ملک پہلے دو ٹکڑے ہو چکا ہے۔ کچھ روز قبل ایک معزز جج صاحب نے قومی اسمبلی میں تقریر کرکے جو کے ان کے کام کے بالکل منافی تھی اس تفریق کو ہوا دی ہے جو اس ملکی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔
ہر ادارے کو اپنے اختلافات آپس میں بات چیت سے حل کرنے چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دوسرے اداروں کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ بہت خطرناک روایت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہیے یہی اس ملک و قوم کے لیے بہتر ہوگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب بھی آئین اور مفادات کا تصادم ہوا ہے ہر کسی نے اپنے مفادات کو ہی عزیز رکھا ہے اور سب سے اہم بات جب آئین بنانے اور اس میں ترامیم کرنے والے اسے ماننے سے انکاری ہوں گے تو پھر باہر تو اور ہی صورتحال ہوگی، اگر پارلیمان کے نمائندوں نے اسے کاغذ کا ٹکڑا سمجھا تو باہر تو پھر اسے اس سے بھی کم درجہ دیا جائے گا۔
کچھ حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ آئین کو ری رائٹ کرنے کی ضرورت ہے بندہ پوچھے آئین کوئی مذاق ہے کہ آپ جب چاہیں اپنے مفادات کی خاطر اس کو جس طرح چاہیں تبدیل کر دیں۔ ان روایات کو بدلنہ ہوگا اس تقسیم کو ختم کرنا ہوگا۔ سب اداروں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ادارے کا اپنا اپنا مقام ہے کسی کا دوسرے سے مقابلہ نہیں تمام ادارے مل کر کام کریں گے تب ہی پاکستان ترقی کرتا نظر آئے گا۔
لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ اسکے مقابلے میں کوئی آنے کی جرات کرے اور عوام میں مقبول ہو جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی قسم کا تجربہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ مگر پہلی بار ہے کہ پاکستانی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی سر اٹھا کر بھی عوام میں مقبول ترین ہوتا جا رہا ہے اور کوئی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پا رہا۔ پہلی بار یہ تجربہ کامیاب ہوتا دیکھائی دے رہا ہے تب ہی تو ہر طرف اس بات کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا ہر وار ناکام جا رہا ہے بلکے ہم پر ہی بھاری پڑ رہا ہے۔
میرے خیال میں سب کو اب ہتھیار ڈال دینے چاہیے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ مل کر کام کرنے سے ہی آفیت ہے۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں کیا اس کے بعد کوئی پیمانہ رہ گیا ہے جس سے آپ پیمائش کریں کہ نفرت کس حد تک پہنچ چکی ہے۔ اس گرفتاری کے بعد تو سب کچھ واضع ہوگیا ہے اور سمجھ بھی آ گئی ہے سب کو کہ یہ ستر کی دہائی نہیں کہ آپ بھٹو جیسے بہترین لیڈر کو ایک بے جان مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیں گے۔ صرف گرفتار کرنے پر اتنا بڑا ری ایکشن آنے کے بعد سب سمجھ جانا چاہیے کہ اب وہ پرانے ذہنوں والی عوام نہیں رہی اب سب کو پتہ ہے کہ پیچھلے پچھتر سال سے اس ملک کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے۔
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے۔
لہٰذا در بنانے کا یہ سلسہ روکنا ہوگا اور لیاقت علی خان سے شروع ہونے والا یہ تجربہ اب عمران خان پر ختم کرنا ہوگا یہ اس ملک و قوم کی بقا کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔ اور عوام کے فیصلے کو اہمیت دینا ہوگی اور مقبولیت کی قبولیت کو ممکن بنانا ہوگا۔ عمران خان عوام میں اس وقت سب سے مقبول لیڈر ہے لہٰذا اس کی مقبولیت کی قبولیت کرکے یہ سلسلہ روکنے میں ہی بقا ہے۔